پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں سب سے پہلے 2005ء میں بطور ایک آبزرور ریاست شرکت کی تھی۔ 2010ء میں جب ایس سی او کے سربراہی اجلاس نے تنظیم کی مستقل رکنیت میں اضافے پر پابندی کو اٹھا لیا تو آبزرور ریاستوں (جو تعداد میں 4 تھیں) میں سے پاکستان پہلا ملک تھا جس نے تنظیم کا مستقل رکن بننے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ 2015ء میں ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں پاکستان اور بھارت دونوں کو مستقل اراکین کی حیثیت سے شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا مگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہونے میں مزید دوسال لگ گئے‘ یعنی جون 2017ء میں جنوبی ایشیا کے ان دو سب سے بڑے ملکوں (پاکستان اور بھارت) کو تنظیم کا مستقل رکن بنا دیا گیا۔
ایس سی او میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت تنظیم کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے نہ صرف ایس سی او کو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم بن جانے کا اعزاز حاصل ہو گیا بلکہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے ایس سی او کے کور گروپ کو وسطی ایشیا کی چار ریاستوں‘ جو ہر طرف سے خشکی سے گھری ہوئی ہیں‘ بحیرۂ عرب اور بحر ہند تک رسائی حاصل ہو گئی۔ ایران کی شمولیت سے ایس سی او کو خلیج فارس تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس کی وجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو سمندر کے راستے اپنی درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے ایک سیدھا اور سستا راستہ مل جائے گا۔ اس سے قبل اس مقصد کے لیے ان ممالک کو روس اور چین پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ جنوبی ایشیا کی‘ خصوصاً پاکستان کی شمولیت سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے پاکستان ڈائریکٹ اور کم فاصلے والا راستہ مہیا کر سکتا ہے۔
کراچی تاجکستان کے لیے قریب ترین بندرگاہ ہے۔ اگر تاجکستان ایران کی بندرگاہ بندر عباس کے بجائے بحیرۂ عرب کے ساحل پر واقع پاکستان کی بندرگاہ (کراچی) کے راستے اپنا سامان باہر کے ملکوں کو بھیجے یا منگوائے تو اسے 3400کلومیٹر کے بجائے 2700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرناپڑے گا۔ اس سے نہ صرف سامانِ تجارت پر اٹھنے والے کرائے میں کمی ہو گی بلکہ تجارتی اشیا کم وقت میں اپنی منزل پر پہنچ سکیں گی۔
پاکستان اور بھارت ایس سی او کے مستقل اراکین ہیں جبکہ نیپال‘ سری لنکا‘ بھوٹان اور مالدیپ ڈائیلاگ پارٹنر اور افغانستان آبزرور ملک کی حیثیت سے اس تنظیم سے منسلک ہیں۔ بنگلہ دیش بھی ڈائیلاگ پارٹنرشپ کے حصول کیلئے پَر تول رہا ہے۔ بحر ہند کے شمال مغرب میں واقع خلیج فارس کے خطے میں ایران عنقریب ایک مستقل رکن کی حیثیت سے ایس سی او میں شامل ہونے والا ہے۔ دیگر ریاستوں میں قطر‘ کویت‘ یو اے ای‘ بحرین اور سعودی عرب ڈائیلاگ پارٹنر ہیں۔ اس طرح بحر ہند کے شمال مشرق (خلیج بنگال) اور شمال مغرب (خلیج فارس) کے ان خطوں‘ جو آج تک بحر ہند کے دفاع اور سکیورٹی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ کی ایس سی او میں شمولیت سے بحر ہند سے لے کر بحرالکاہل تک کا علاقہ اہم جیو سٹرٹیجک تبدیلیوں کا مرکز بن سکتا ہے۔
اس ضمن میں جیو پالیٹکس کے ماہرین امریکہ کے ایک سابق صدر جمی کارٹر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (NSA) زبگنائف برازنسکی (Zbigniew Brzezinski) 1977-81ء کے نظریے کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق قدرتی دولت‘ معدنیات اور دیگر وسائل سے مالا مال ہونے کے علاوہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی بنا پر یورپ اور ایشیا (یوریشیا) کا خطہ اتنا اہم ہے کہ جو طاقت (ملک) اس پر قابض ہو جائے‘ وہ پوری دنیا پر اپنی بالا دستی قائم کر سکتی ہے اور یوریشیا پر قبضے کی چابی وسطی ایشیا کے ہاتھ میں ہے‘ یعنی وسطی ایشیا پر کنٹرول کے ذریعے یوریشیا پر قبضہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر یوریشیا پر قبضہ ہو جائے تو پوری دنیا پر بالا دستی قائم کرنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔
اس وقت قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان پر مشتمل علاقہ ایس سی او کا حصہ ہے اور روس اور چین کی شمولیت سے یوریشیا کا بیشتر خطہ بھی ایس سی او سے منسلک ہے۔ اس کے ساتھ ایس سی او کی سرحدیں خلیج فارس سے لے کر بحر ہند اور اس سے آگے مشرق اور مشرق بعید میں بحرالکاہل تک پھیل چکی ہیں۔ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی ممالک ایس سی او کی اس توسیع کی چھتری تلے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور اقتصادی راہداری کے مختلف منصوبوں کو چین کی طرف سے پوری دنیا پر بالا دستی قائم کرنے کا پروگرام قرار دیتے ہیں لیکن برازنسکی اور ان کے ہم خیال دیگر تھنکرز مثلاً میکنڈز اور سپائک مین کے نظریات موجودہ صورت حال پر لاگو نہیں ہوتے کیونکہ 21ویں صدی کی صورت حال خصوصاً چین کی سافٹ پاور پالیسی کی روشنی میں 19ویں صدی سے بالکل مختلف ہے البتہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد جہاں ایس سی او کو بحر ہند اور خلیج فارس تک رسائی حاصل ہوئی ہے‘ وہاں پاکستان اور بھارت کے متحارب تعلقات اور علاقائی تعاون خصوصاً انٹر ریجنل کونیکٹوٹی کے بارے میں مختلف زاویۂ نگاہ سے تنظیم کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے علاقائی تعاون تنظیم سارک 1985ء میں قائم ہوئی تھی مگر تقریباً 48 سال گزر جانے کے بعد بھی سارک کے آٹھ ممالک (پاکستان‘ بھارت‘ نیپال‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور افغانستان) کے مابین تجارت کا حجم ان ممالک کی کل بیرونی تجارت کے 6 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے اس تنظیم کے چارٹر کا بار بار راستہ روکا جاتا رہا ہے۔ اس تنظیم کے معاملات میں بھارت کی بے جا مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016ء کے بعد اس کی سربراہی کانفرنس کے سالانہ انعقاد کا سلسلہ منقطع ہے۔
جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک سارک کو فعال اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ تنظیم اپنے بے شمار پوٹینشل کے باوجود غیر فعال ہے۔ خطے کے چھوٹے ممالک اس کی ذمہ داری پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات پر ڈالتے ہیں۔ ایس سی او میں ان دونوں ممالک کی شمولیت پر غور کرتے وقت اس مسئلے کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور دونوں سے یہ یقین دہانی حاصل کی گئی تھی کہ ایس سی او کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات اور تنازعات کو زیرِ بحث نہیں لائیں گے۔ ایس سی او چارٹر کے مطابق تنظیم کے فورم پر دو طرفہ تنازعات کو زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا‘ مگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر اگست 2019ء کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں میں تجارت‘ آمد و رفت اور رابطے کے تمام دیگر ذرائع بند ہیں۔ کیا ان حالات میں پاکستان اور بھارت ایس سی او سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس تنظیم کو اس خطے کی تعمیر و ترقی کا نیا محور بنایا جا سکتا ہے؟ کیا ایس سی او اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو جائے گی یا اس سلسلے میں بھی سارک کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ اس سوال کو ہم اگلی اور آخری قسط میں زیرِ بحث لائیں گے۔ (جاری)