یہ سچ ہے کہ سیاسی مسائل کا حل قانونی ذرائع سے نہیں ڈھونڈا جا سکتا‘ مگر قانون یا قانونی ادارے سیاست کی پیچیدگیوں کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب سیاستدان یا سیاسی پارٹیاں اس مقصد میں نا کام ہو رہی ہوں یا ایسی صورتحال پیدا ہو جائے جو ان کے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ اس وقت قانونی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سماجی علوم کے طالب علم جانتے ہیں کہ جس طرح تاریخ اور سیاست‘ یا معیشت اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے‘ اسی طرح قانون اور سیاست بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ کیونکہ قانون سیاسی عمل کو وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی عمل یا فیصلے کو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی قبولیت ملتی ہے۔ اس بنیاد کا نام ''جواز‘‘ (Legitimacy) ہے۔
پاکستان ماضی میں اس تجرنے سے گزر چکا ہے‘ جب ایک سیاسی عمل سے پیدا شدہ مشکل صورتحال سے نکلنے میں ملک کی عدلیہ نے اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی (1954-1947ئ) کو تحلیل کر دیا تھا۔ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے کر اسمبلی بحال کر دی‘ جس پر وفاقی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی عدالت (سپریم کورٹ) میں اپیل کر دی۔اُس وقت وفاقی کورٹ کے صدر (چیف جسٹس) جسٹس محمد منیر تھے‘ جنہوں نے پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ انہوں نے اس بحث میں پڑنے سے پیشتر کہ کیا گورنر جنرل کو آئین ساز اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار تھا یا نہیں‘ ایک خالصتاً تکنیکی بنیاد پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور گورنر جنرل کا حکم بحال کر دیا۔ وہ تکنیکی نکتہ یہ تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اس وقت پاکستان کے عبوری دستور‘ پاکستان انڈیپنڈنس ایکٹ 1947ء کی دفعہ 223-A کے تحت گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کی تھی جبکہ وہ ابھی قانون نہیں بنا تھا کیونکہ اسے گورنر جنرل کی منظوری حاصل نہیں ہوئی تھی۔ فیڈرل کورٹ نے اس تکنیکی نکتے کا سہارا لے کر گورنر جنرل کے اقدام کو برقرار رکھا‘ لیکن ملک ایک انتہائی گہرے اور خطرناک قانونی اور آئینی بحران کا شکار ہو گیا کیونکہ 223-A کی طرح 46 اور بھی قوانین موجود تھے جنہیں آئین ساز اسمبلی نے اپنی قانون ساز اسمبلی کی حیثیت میں گزشتہ سات سال میں مختلف مواقع پر منظور کیا تھا‘ لیکن گورنر جنرل سے منظوری حاصل نہیں کی تھی۔سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو وفاقی عدالت نے کالعدم قرار دے کر نہ صرف 223-A بلکہ اسی طرح 46 دیگر قوانین کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام فیصلے بھی غیر مؤثر ہو گئے جو ان قوانین کی روشنی میں ملک کی مختلف عدالتوں نے مختلف مواقع پر کئے تھے۔ وفاقی عدالت کے اس فیصلے سے پاکستان میں مقدمہ بازی کا ایک طوفان بپا ہو گیا۔ جن لوگوں کو ان کالعدم قوانین کے تحت سزائیں سنائی گئی تھیں یا مالی نقصان ہوا تھا‘ انہوں نے داد رسی کیلئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دئیے اور اپنی سزائیں معاف کروانے یا جرمانے کی رقوم واپس لینے کی درخواستیں دائر کرنا شروع کر دیں۔ بہت سے لوگوں کو اس الٹ پھیر میں نقصان ہوا اور بہت سے فیض یاب بھی ہوئے۔ فیض یاب ہونے والوں میں مشہور زمانہ ''پنڈی سازش کیس‘‘ کے سزا یافتگان فیض احمد فیض‘ میجر اسحاق محمد‘ جو بعد میں مزدور کسان پارٹی کے سربراہ بنے اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے دیگر اراکین بھی شامل تھے‘ کیونکہ دیگر قوانین کے ساتھ اس قانون کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا تو جس کے تحت انہیں سزا دی گئی تھی تو ان سیاسی کارکنوں کو مزید جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھی۔
اس صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے حامد خان نے اپنی کتاب: A history of judiciary in Pakistanمیں لکھا ہے کہ جسٹس منیر کی صدارت میں وفاقی کورٹ کے اس فیصلے نے پاکستان میں ایک آئینی اور قانونی خلا پیدا کر دیا اور پاکستان کے مشہور پولیٹیکل سائنٹسٹ جی ڈبلیو چودھری کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ایسا بحران پیدا ہوا‘ جس میں ریاستِ پاکستان کی بقا خطرے میں پڑ گئی کیونکہ دستور ساز اسمبلی‘ جو آئین سازی کے ساتھ قانون ساز اسمبلی کا کردار بھی ادا کر رہی تھی‘ کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور یہ سوال پیدا ہوا کہ اب پاکستان کیلئے نیا آئین کون سا ادارہ بنائے گا اور سیاست کے روز مرہ معاملات کو چلانے کیلئے کون سا ادارہ قواعد و ضوابط تشکیل دے گا؟ اس وقت بہت سے سوالات پیدا ہو چکے تھے جن کے جواب تلاش کرنا آئینی بحران سے نکلنے کیلئے ضروری تھا۔
اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے گورنر جنرل نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اسمبلی کے اختیارات (آئین سازی اور قانون سازی) اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی مگر اس اہم موقع پر وفاقی عدالت نے مداخلت کی اور حکم جاری کیا کہ گورنر جنرل آرڈیننس کے ذریعے حکومت کا کاروبار نہیں چلایا جا سکتا اور نہ ہی اسے آئین سازی کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیار صرف ایک آئین ساز اسمبلی کو حاصل ہے اور اسی کو یہ کام کرنا چاہئے؛ چنانچہ گورنر جنرل کی درخواست پر وفاقی عدالت کی جاری کردہ گائیڈ لائن کے تحت ایک آئینی کمیشن (Constitution Commission) تشکیل دیا گیا جس نے آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو پہلا (1956ئ) کا آئین دیا اور یوں پاکستان کو ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل صورتحال سے نجات دلائی۔
اب بھی عدلیہ ملک کے سیاستدانوں کو ایک فارمولے پر متفق ہونے میں مدد فراہم کر سکتی ہے کیونکہ کسی بھی سیاسی عمل کی کامیابی اور قبولیت کیلئے اس کا قانونی اور آئینی لحاظ سے جائز ہونا ضروری ہے اور یہ کلیدی کردار صرف عدلیہ ہی ادا کر سکتی ہے‘ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا جائے۔ اس وقت صورتحال اس سے مختلف ہے۔ عدلیہ کے بعض متنازع فیصلوں سے اس پر اعتماد کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ اپوزیشن تو عدلیہ پر اعتماد کرتی ہے لیکن حکومت کا اعتماد ویسا نہیں ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کے اقدامات کو ایک آئینی اور قانونی جواز صرف عدلیہ ہی فراہم کر سکتی ہے۔
قومی اسمبلی نے حال ہی میں آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کرنے کے حق میں جو قانون منظور کیا ہے وہ نہ صرف حکومت اور عدلیہ کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج کو ختم کر سکتا ہے بلکہ موجودہ بحران‘ جس میں سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ آئندہ انتخابات کی تاریخ متعین کرنا ہے‘ کے حل کیلئے بھی راہ ہموار کر سکتا ہے۔