جولائی میں بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی سربراہی کانفرنس ہونے والی ہے۔ پہلے یہ طے پایا تھا کہ یہ کانفرنس SCO کے آٹھ مستقل اراکین کے سربراہان‘ جن میں روس کے صدر ولادی میر پوتن‘ چین کے صدر شی جن پنگ اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف شامل ہیں اور دیگر سربراہانِ مملکت اور حکومت بھی‘ ان کی بھارت میں موجودگی کی صورت میں منعقد ہو گی‘مگر بھارتی حکومت کے ایک تازہ ترین فیصلے کے بعد اب یہ کانفرنس ورچوئل (Virtural) صورت میں یعنی آن لائن ہوگی۔ یعنی اس کانفرنس کے موقع پر شرکا بھارت میں موجود نہیں ہو گے‘ اس طرح رہنماؤں کوآپس میں غیر رسمی طور پر ملنے‘ تبادلۂ خیال کرنے اور دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ کسی بھی کانفرنس میں ایسے غیر رسمی مگر انتہائی اہم مواقع کی عدم دستیابی نہ صرف کانفرنس کی اہمیت کو کم کرنے کا باعث بنتی ہے بلکہ امن‘ تعاون اور ترقی کے فروغ کے لیے کانفرنس کے شرقا کو تبادلۂ خیال کرنے کا جو موقع ملنے کا امکان ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
سبھی لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایس کانفرنسوں کے رسمی اجلاس کے دوران شرکا کو کانفرنس سے ہٹ کر سائیڈ لائن پر ملنے اور بات چیت کرنے کا جو موقع ملتا ہے اس سے نہ صرف کانفرنس کے مقاصد بلکہ امن‘ استحکام اور تعاون کو وسیع تر تناظر میں فروغ دینے میں مدد ملتی ہے لیکن بھارت کے سیاسی فیصلے سے SCO کی یہ سربراہی کانفرنس بس رسمی آن لائن کانفرنس تک محدود کر دی گئی ہے۔ کانفرنس کے شرکا کو ذاتی طور پر ملنے اوربات چیت کرنے کا جو موقع مل سکتا تھا وہ نہیں ملے گا۔ حالانکہ کورونا وائرس کی وبا کے ختم ہونے کے بعد اب بین الاقوامی کانفرنسیں فزیکل موجودگی کی بنیاد پر منعقد ہو رہی ہیں۔ خود بھارت G20 کی سربراہی کانفرنس اس سال ستمبر میں فزیکل موجودگی کی بنیاد پر منعقد کر رہا ہے‘ جبکہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھارت کے شہر گوا میں SCO کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی اُس کا انعقاد بھی فزیکل موجودگی کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا‘ اس لئے بھارت کے اس فیصلے پر نہ صرف حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ اس فیصلے کے پیچھے کارفرما عوامل کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی بھارت میں منعقد ہونے والی اس سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور روس اور چین کے صدر‘ ولادیمیر پوتن اور شی جن پنگ ایک ساتھ شریک ہوں گے۔ گوا میں SCOکی وزرائے خارجہ کانفرنس میں شریک ہونے والے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جس طرح نہ صرف عالمی بلکہ خود بھارتی میڈیا کا فوکس بنے تھے‘ اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ڈر ہے کہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر بھی وزیراعظم شہباز شریف علاقائی اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جائیں کیونکہ اس موقع پر انہیں بیک وقت تنظیم کے دو بڑوں کے ساتھ غیر رسمی اور دوطرفہ بنیادوں پر بات چیت کا موقع بھی ملے گا۔
بھارت میں بی جے پی کی موجودہ حکومت کو خدشہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم چینی اور روسی رہنماؤں کو جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کے بارے میں ا پنے مؤقف کے حق میں قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت کے ساتھ براہ راست بات چیت کے ذریعے متنازع مسائل حل کرنے کے ارادے کا اظہار کر چکے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت اپنی سرزمین پر چین اور روس کے رہنماؤں کی میزبانی کر کے امریکہ کی ناراضی مول نہیں لے سکتا۔ امریکہ بحر الکاہل اور بحر ہند کے خطوں میں چین کو اپنے مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکا ہے اور یوکرین کی جنگ پر روس کی مخالفت نہ کرنے کی وجہ سے امریکہ دونوں ملکوں کو نئی عالمی سرد جنگ میں اپنا حریف سمجھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ اور بھارت دفاعی اور دیگر اہم شعبوں میں ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
بھارت چین کے ساتھ سرحدی تنازع میں امریکہ کو چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کے اعلیٰ حکام جن میں وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں‘ نے چین کو خبردار کیا ہے کہ ہمالیہ کی سرحد پر کشیدگی سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں حالانکہ چین کے ساتھ اس کی دوطرفہ تجارت کے حجم میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کی دوطرفہ تجارت کا حجم 100بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے‘ اس طرح روس کے ساتھ بھی بھارت کے سٹرٹیجک تعلقات فروغ پا رہے ہیں۔ حال ہی میں اس نے ایران کے راستے روس سے تجارت بڑھانے کے لیے نارتھ ساؤتھ انٹرنیشنل کاریڈور میں ایک مسنگ لنک کو پُر کرنے کیلئے 164کلو میٹر لمبی ریلوے لائن تعمیر کرنے کے منصوبے پر دستخط کئے ہیں۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر سے روس اور بھارت کے درمیان تجارتی اشیا کی ترسیل میں وقت اور کرائے کی بہت بچت ہوگی۔ اس سے قبل بھارتی اور روسی بحری جہازوں کو نہر سویز سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس لئے مبصرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بھارت SCO کی سربراہی کانفرنس کو فزیکل شرکت کی بجائے آن لائن منعقد کر کے کون سے سٹرٹیجک فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
البتہ بھارت کے اس فیصلے کے ضمن میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت نے مغربی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور روس کی وسیع مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیےSCO میں تو شرکت اختیار کرلی ہے لیکن چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ اس کے سب سے اہم منصوبے سی پیک کی مسلسل مخالفت کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت بیک وقت SCO کی چھتری تلے وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان بڑھتے ہوئے علاقائی روابط اور بحر ہند سے بحر الکاہل تک وسیع سمندری خطے میں امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ایک طرف تو وہ چین اور روس کی قیادت میں فروغ پذیر SCO کے ذریعے تجارتی اور معاشی فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد سے بحر ہند کے خطے میں اپنی دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ بحر ہند میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہو جائے گا‘مگر بھارت کے اس گرینڈڈیزائن میں سب سے نمایاں فالٹ لائن یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس کے چھوٹے ہمسایہ ممالک بھارت کی اس حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں اور اکیلے بھارت کے پاس اتنے وسائل اور اتنی اہلیت نہیں کہ وہ وسطی ایشیا کے بعد مشرق وسطیٰ میں چین کی سافٹ پاور پر مبنی سفارت کاری کا مقابلہ کر سکے۔