وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورۂ بلوچستان کے دوران صوبے کے قدرتی اور معدنی وسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے‘ مگر ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ مستفید ہونے والے سب سے پہلے صوبے کے عوام ہونے چاہئیں۔ ''بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے اور مقامی لوگوں کو زندگی کے ہر شعبے خصوصاً تعلیم اور صحت میں سہولتیں میسر ہونا چاہئیں‘‘۔ پاکستان کی ہر حکومت‘ چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو‘ بلوچستان اور اس کے عوام کے بارے میں یہی الفاظ دہراتی چلی آ رہی ہے‘ لیکن زمینی حقائق کیا ہیں اور اس قسم کے وعدوں پر کہاں تک عمل ہوتا رہا ہے‘ اس کا اندازہ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈز مئیرمنٹس سروے (Pakistan Social and Living Standards Measurements (PSLM), 2018-19) کی بلوچستان کے بارے میں رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق صوبے کی آبادی میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد کے تناسب یعنی لٹریسی کے اعتبار سے بلوچستان اب بھی ملک کے تمام صوبوں سے پیچھے ہے اور لٹریسی کی سطح میں اضافے کے بجائے اس میں کمی واقع ہو رہی ہے‘ مثلاً سروے کے مطابق 2018-19ء میں صوبے میں 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں میں 59 فیصد سکول جانے سے محروم ہیں جبکہ اس سے چار سال قبل اسی ادارے کے سروے کے مطابق یہ تناسب 51 فیصد تھا۔ یاد رہے کہ قومی سطح پر سکول نہ جانے والے بچوں کی اوسط شرح 30 فیصد ہے۔ سکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے‘ اور سروے کے مطابق اسی عمر کی بلوچ بچیوں کی کل تعداد میں سے دو تہائی سکول جانے سے محروم ہیں۔ بلوچستان کی آدھی سے زیادہ آبادی (61 فیصد) نے کبھی سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ 15سے 24سال کے نوجوان طبقے میں لٹریسی کی شرح گزشتہ برسوں میں بڑھنے کے بجائے 38فیصد سے کم ہو کر 37 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں نیشنل یوتھ لٹریسی کی اوسط شرح 72 فیصد ہے۔ سروے کے مطابق سوشل انڈی کیٹرز میں بلوچستان سابقہ ''فاٹا‘‘ سے بھی پیچھے ہے جہاں کسی زمانے میں پڑھے لکھے مردوں اور عورتوں کی تعداد بالترتیب 20 اور 3 فیصد سے بھی کم ہوا کرتی تھی‘ حالانکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے دوران مختلف حکومتوں نے بلوچستان میں ترقی کے نام پر خطیر رقم پر مبنی پیکیجز کا اعلان بھی کیا ہے۔
اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت (2008-13ء) کے دوران ''آغازِ حقوقِ بلوچستان‘‘ کا مقصد خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے یہ منصوبہ بڑی دھوم دھام اور بلند و بالا توقعات اور دعووں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا‘ لیکن اس سے نہ تو بلوچستان میں ترقی کا عمل تیز ہوا اور نہ قومی مصالحت کی طرف کوئی پیش قدمی ہوئی۔ اسی طرح پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں سابق وزیراعظم عمران خان نے گوادر کے دورے (جولائی 2021ء) کے دوران 600 ارب روپے کے ایک ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا‘ مگر یہ منصوبہ صرف اعلان تک ہی محدود رہا‘ عملی طور پر اس منصوبے کے تحت صوبہ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کی طرف کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ سابق وزیراعظم نے یہ دیکھ کر کہ صوبے میں بلوچ قوم پرست عناصر کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے دیگر دہشت پسند تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں‘ ناراض بلوچوں کو راضی کرنے کے لیے ایک نیم دلانہ کوشش بھی کی تھی اور اس مقصد کے نواب اکبر بگٹی کے پوتے اور جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی کو صوبے میں قومی مصالحت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے سپیشل اسسٹنٹ مقرر کر دیا‘ مگر یہ فیصلہ مکمل طور پر نان سٹارٹر تھا کیونکہ بلوچ قوم پرست حلقوں خصوصاً نواب اکبر بگٹی کے ایک اور پوتے براہمدغ بگٹی جو اس وقت کالعدم بلوچ ریپبلکن پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں‘ میں شاہ زین بگٹی کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ براہمدغ بگٹی نے 2008ء میں جمہوری وطن پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
بلوچستان ملک کے باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں ترقی کے میدان میں اس لیے پیچھے رہ گیا ہے کہ اس کے اصل مسئلے کو حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی اور اگر کی بھی گئی تو بعض حلقوں کی جانب سے اسے سبوتاژ کر دیا گیا۔ بلوچستان کا مسئلہ بنیادی طور پر نہ تو لا اینڈ آرڈر کا ہے اور نہ وسائل کی کمی۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ سیاسی ہے جو دراصل بلوچستان اور مرکز کے درمیان عرصہ دراز سے چلے آنے والے باہمی اعتماد اور احترام کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ بلوچستان کے ایک سابقہ گورنر اور 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف حکومت کے رکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ایک دفعہ سرکاری ٹی وی پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کوئی حکومت عام بلوچوں اور ان کے قبائلی اور سیاسی رہنمائوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس سے باہمی بداعتمادی کی فضا پیدا ہوئی اور بلوچستان میں قومی تشخص کا تحفظ اور اپنے وسائل پر حق بڑے مسائل بن کر سامنے آ چکے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ چونکہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے اس لیے اسے سیاسی ذرائع سے حل کرنا چاہیے‘ مگر بدقسمتی سے کچھ حلقے اسے محض چند گمراہ افراد کی پیدا کردہ مسلح شورش قرار دے کر طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں‘ مگر یہ اپروچ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ حالات پہلے کے مقابلے میں زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے بھی مقامی مسلح تنظیموں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیوں کا دائرہ صوبے کے ان حصوں تک پھیلا دیا ہے جہاں سے چائنا پاک اکنامک کاریڈور (سی پیک) گزرتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے لیے سی پیک کی حفاظت اور اس کی کامیابی کتنی اہمیت رکھتی ہے‘ یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان اور چین کا یہ مشترکہ منصوبہ بلوچستان میں ایک انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے‘ مگر اس کے لیے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے جو کہ صرف سیاسی ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ خوش قسمتی سے اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے اس دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کے حل کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ بلوچستان میں قومی مصالحت اور قیامِ امن کے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ اور تقریباً کامیابی سے ہمکنار ہونے والی کوشش 2013ء کے انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے دور میں کی گئی تھی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت کے سربراہ اور نیشنل پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر عبدالمالک اور وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے 2015ء میں براہمدغ بگٹی سے جنیوا میں دو دفعہ ملاقات کی تھی اور ذرائع کے مطابق براہمدغ بگٹی بات چیت کے ذریعے صوبے کے مسائل کے حل پر آمادہ ہو چکے تھے‘ مگر ڈاکٹر عبدالقادر کی جگہ نواب ثنااللہ زہری کی حکومت آ جانے سے مذاکرات کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عبدالمالک اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس کے لیے انہوں نے نون لیگ کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت سے بھی رابطہ قائم کیا ہے۔