9اور 10ستمبر کو نئی دہلی میں ہونے والی جی 20 کی سربراہی کانفرنس کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ اسے وزیراعظم نریندر مودی نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ پارٹی (بی جے پی) کو زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کانفرنس کی تشہیر اور شرکا کی رہائش‘ خوراک اور انٹرٹینمنٹ کے لیے جو انتظامات کیے گئے ان کی جی20کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کانفرنس کے انعقاد سے مہینوں پہلے سرکاری سرپرستی میں کانفرنس کی تھیم ''ساری دنیا ایک خاندان ہے‘‘ اور اس کے ایجنڈے میں شامل مسائل پر بھارت کے 58 شہروں میں 200کے قریب سیمینارز منعقد کیے گئے‘ جن میں بھارت کی اہم یونیورسٹیوں‘ تھنک ٹینکس اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے سکالرز نے شرکت کی۔ بھارت کی قدیم تہذیب اور کلچر کو اجاگر کرنے کے لیے بڑے بڑے شہروں میں نمائشیں منعقد کی گئی تھیں۔ دارالحکومت دہلی‘ جہاں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد ہونا تھا‘ کو خوب سجایا گیا تھا۔ شہر کی سڑکوں اور پرانی عمارتوں کی مرمت کے علاوہ بڑی بڑی سڑکوں کے ساتھ واقع گھروں کو نئے سرے سے پینٹ کیا گیا حتیٰ کہ نئی دہلی میں ٹریفک کنٹرول پر مامور سپاہیوں کی وردی بھی تبدیل کر دی گئی۔ کانفرنس میں شرکا کی حفاظت کے لیے چار ہزار پولیس اہلکاروں کے علاوہ 700 فوجی بھی تعینات تھے۔ ٹریفک کنٹرول کے لیے 10ہزار سپاہی اس کے علاوہ تھے۔ شرکا کے اہلِ خانہ کی حفاظت کے لیے انتظامات اس کے علاوہ تھے۔ کانفرنس کے شرکا اور ان کے اہلِ خانہ کی رہائش کے لیے 23ہوٹلوں کو بک کیا گیا تھا‘ جہاں ہندوستان کے تمام حصوں کی مشہور ڈشز کا اہتمام کیا گیا تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کو یہ پیغام پہنچانے کے لیے کیا گیا کہ بھارت عالمی رہنما بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔
بھارت کو جی 20 کی صدارت ایک سال کے لیے ملی ہے۔ اگلے سال اس کی صدارت برازیل کے پاس چلی جائے گی مگر ایک سال کی مدت میں بھارت جی20 کے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان مقاصد میں چین کے مقابلے میں تیسری دنیا کی ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مالک ممالک کی قیادت کے لیے اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا بھی شامل ہے۔ بھارت ایک عرصے سے اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے مگر جی20 جس میں شامل ممالک دنیا کی 60 فیصد آبادی‘ 75 فیصد تجارت اور 85 فیصد جی ڈی پی کے مالک ہیں‘ کی صدارت نے اسے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔
اس وقت جی20 میں بھارت نہ صرف آبادی بلکہ جی ڈی پی کی سالانہ گروتھ ریٹ کے ضمن میں تنظیم کے باقی ارکان سے آگے ہے۔ چین کے بعد بھارت دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے۔ اس لیے نہ صرف صنعتی طور پر ترقی یافتہ بلکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مالک ممالک کے لیے بھی توجہ کا مرکز ہے۔ اگرچہ نریندر مودی کی حکومت کو دہلی شہر کو تین دن کے لیے مکمل بند کرنے اور اپوزیشن کو کانفرنس میں مدعو نہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر اس کے مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جی20 کی سربراہی کانفرنس نریندر مودی کی ایک ڈپلومیٹک کامیابی ہے کیونکہ کانفرنس سے پہلے جی20 کے اندر مختلف مسائل مثلاً یوکرین کی جنگ اور موسمی تغیرات اور آلودگی پر سخت اختلافات تھے‘ اور عام طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ دہلی کی سربراہی کانفرنس بغیر کسی متفقہ اعلامیہ کے ختم ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو گزشتہ 17کانفرنسوں میں یہ پہلی کانفرنس ہو گی جو بغیر کسی مشترکہ اعلامیہ کے اختتام پذیر ہو گی۔ یہ صورت حال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ذاتی طور پر بہت حوصلہ شکن اور شرمندگی کا باعث ثابت ہوتی کیونکہ انہوں نے اس کانفرنس سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ اس کانفرنس کے ذریعے وہ پوری دنیا میں بھارت کی دھاک بٹھانا چاہتے تھے اور اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات میں کانگرس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کے نئے اتحاد کے عزائم کو شکست دینا چاہتے تھے مگر کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی اس کی ناکامی کی پیشگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کیونکہ اس سربراہی کانفرنس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے خود شرکت کرنے کے بجائے وزیراعظم لی کوآنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے خود آنے کے بجائے اپنے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ چین کے صدر شی جن پنگ کی عدم شرکت پر امریکی صدر جو بائیڈن نے تو افسوس کا اظہار بھی کیا تھا‘ تاہم سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان‘ برطانوی اور کینیڈین وزیراعظم کی شرکت نے اس کانفرنس کی افادیت برقرار رکھنے میں مدد دی تاہم مشترکہ اعلامیہ کا امکان معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ یوکرین کے مسئلے پر روس اور امریکہ کے دو متصادم موقف تھے۔ اسی وجہ سے سربراہی کانفرنس سے پہلے دہلی میں منعقدہ جی20 وزرائے خارجہ کی کانفرنس پہلی دفعہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہی‘ اور اس کے بجائے آئوٹ کم سٹیٹمنٹ (Outcome Statement) جاری کرنا پڑی مگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی کوششوں سے کانفرنس کے شرکا مشترکہ اعلامیہ میں ایک ایسی زبان استعمال کرنے پر راضی ہو گئے جو سب کے لیے قابلِ قبول تھی۔ اس کانفرنس کی کامیابی میں چینی وزیراعظم لی کوآنگ نے بڑا مثبت کردار ادا کیا‘ جس کا بھارتی وزیر خارجہ کو برملا اعتراف کرنا پڑا۔
دوسری بات جس نے اس کانفرنس کو بھارت کے لیے ایک اہم کامیابی بنا دیا وہ نریندر مودی کی طرف سے ایسے ممالک کو بھی شرکت کی دعوت تھی جو ابھی جی ٹونٹی کے باقاعدہ رکن نہیں بنے مثلاً بنگلہ دیش۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق نریندر مودی کانفرنس کی باقی ماندہ صدارتی مدت میں تیسری دنیا سے مزید ممالک کو جی20 میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں سعودی عرب کے علاوہ خلیج فارس کے ممالک بھی شامل ہیں۔ اس سے بھارت جی20 میں اپنے حامی ممالک کی تعداد بڑھا کر دنیا کی سب سے امیر اور طاقتور اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مالک ممالک پر مشتمل تنظیم میں ایک با اثر پوزیشن حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سے بھارت کو تنظیم کی فیصلہ سازی کے عمل میں نمایاں طور پر دخل حاصل ہوجائے گا۔
اگلے سال بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم نریندر مودی نے جی20 کانفرنس کو اپنی پارٹی کے حق میں فضا پیدا کرنے کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے۔ مودی اس کانفرنس کی کامیابی کو یقینی طور پر انتخابی سیاست میں اپنے حق میں استعمال کریں گے‘ اس لیے کہ مبصرین کے مطابق آسام کے خون ریز فسادات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے گر چکا ہے۔ اگرچہ بی جے پی کی سرکردگی میں سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل ہے اور انتخابات میں اپوزیشن الائنس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تاہم سیاست اور جنگ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو‘ مگر خود کانگرس کے ایک اہم رہنما ششی تھرور کے مطابق کانفرنس کی کامیابی کو نریندر مودی بی جے پی کی انتخابی مہم میں استعمال کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانفرنس سے زیادہ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر امریکہ‘ بھارت اور سعودی عرب کی طرف سے ''انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کاریڈور‘‘ کی تعمیر کے اعلان کو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں زیادہ پبلسٹی دی جا رہی ہے۔ اگلا کالم اس منصوبے کی جیو پولیٹکل اہمیت پر ہو گا۔