اسرائیل کے وزیر دفاع کا بیان ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی فوجی چڑھائی کا مقصد فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ جنگ حماس کی مکمل شکست اور ہتھیار ڈالنے تک جاری رہے گی۔ غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کی فوجوں کے اجتماع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل ماضی کی کارروائیوں کے برعکس کسی بڑے مقصد کے لیے تیار بیٹھا ہے اور اس کے اس ارادے کو صاف دیکھنے میں اب کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی۔ اسرائیل غزہ کی پٹی پر چڑھائی کرکے اور اس کی آبادی کو فضا سے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی بمباری اور زمین پر توپ خانے اور ٹینک کی گولہ باری سے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اس پر قبضہ جمانا چاہتا ہے تاکہ حماس یا فلسطینیوں کی کوئی اور جنگجو تنظیم اسے اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ غزہ پر قبضہ کرنا لیکن اسرائیل کے لیے اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا کیونکہ 1948ء اور 1967ء کے برعکس اب فلسطینیوں نے یہودیوں کے دباؤ میں نہ آنے اور غزہ سے نہ نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے پیش نظر غالب امکان یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی فوجیں داخل کرنے اور گھر گھر حماس کے مجاہدین کو تلاش کرنے کے لیے اپنا آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے نتیجے کا انتظار کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ہم خیال حکومتوں کو فلسطینیوں کے غزہ سے اخراج اور انہیں کسی اور جگہ بسانے کے منصوبے کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسرائیل کے منصوبے میں صرف غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنا ہی شامل نہیں۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت‘ جس میں انتہا پسند‘ دائیں بازو کی صہیونی پارٹیوں کو غلبہ حاصل ہے‘ اعلان کر چکی ہے کہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کر لیا جائے گا کیونکہ ان کے دعوے کے مطابق یہ خطہ ان کی تہذیب اور تمدن کا گہوارہ ہے اور اس کے بغیر ایک یہودی ریاست کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے گزشتہ سال دسمبر میں موجودہ حکومت کے قائم ہوتے ہی دریائے اُردن کے مغربی کنارے کو آہستہ آہستہ اسرائیل کا حصہ بنانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا تھا اور اس کے لیے ایک طرف نئی یہودی بستیاں بسانے اور دوسری طرف مغربی کنارے پر رہنے والے فلسطینیوں پر مختلف طریقوں سے عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کارروائیاں جن میں مسلح حملے‘ جائیدادوں کو نقصان پہچانا اور فلسطینی بچوں کو سکول اور مردو خواتین کو کام پر جانے سے روکنا شامل ہے‘بھی مسلسل جاری تھیں۔ حد یہ ہے کہ یہ سب کارروائیاں اسرائیلی فوج کے سامنے یہودی آباد کار کر رہے تھے جو کہ آٹو میٹک ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور فلسطینی باشندوں کی طرف سے معمولی سی مزاحمت پر بھی فائرنگ کر دیتے ہیں۔ یہودی آباد کاروں کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک مغربی کنارے پر سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کی کارروائی سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کی تمام تر توجہ فلسطینیوں کے لیے مغربی کنارے میں رہنا اس حد تک مشکل اور خطرناک بنانا تھا کہ وہ خود یہاں سے ہمسایہ عرب ممالک میں نقل مکانی کر جائیں اور اس طرح اسرائیل کو بیت المقدس سمیت پورے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا موقع مل جائے۔ مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی حکومت کے بعض اراکین کا داخلہ اور اشتعال انگیز کارروائیاں بھی اس منصوبے کا حصہ تھیں۔ ان سب کا مقصد فلسطینیوں کو اس حد تک مشتعل کرنا تھا کہ اسرائیل کو ان پر گولی چلانے کا موقع مل جائے جس سے تنگ آ کر فلسطینی مغربی کنارے اور مسجد اقصیٰ میں ان کی تجاوزات اور نئے یہودیوں کی آباد کاری کے خلاف مزاحمت ختم کر دیں۔ حماس کی حالیہ کارروائی کے بعد اسرائیل کو اب غزہ کو بھی شامل کرکے اسرائیل کے اس توسیعی منصوبے کو عملی شکل دینے کا موقع مل گیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں مرکزی حیثیت فلسطین میں فلسطینیوں کے وجود کو ختم کرنے کو حاصل ہے۔ اس لیے اب اسرائیلی فوجی اور سیاسی حکام کے بیانات میں حماس سے زیادہ فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بات کی جا رہی ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک ہفتہ کے دوران اسرائیل نے غزہ پر جس طرح اندھا دھند بمباری کی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر سفید فاسفورس کے بم گرائے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ کارروائیوں کا ہدف حماس سے زیادہ بچوں‘ عورتوں اور غیر مسلح فلسطینی سویلین آبادی ہے اور اس کا مقصد تباہی‘ بربادی‘ خوف و ہراس اور موت کا ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں فلسطینی اسرائیل کے الٹی میٹم سے ڈر کر غزہ کی پٹی خالی کر دیں اور اُن لاکھوں بے وطن فلسطینیوں کا حصہ بن جائیں جو ہمسایہ عرب ممالک میں برسوں سے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں یا مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے عرب ممالک میں غیرریاستی باشندوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کا خیال ہے کہ اس طرح فلسطین بحیثیت ایک قوم ختم ہو جائیں گے۔ تتر بتر ہو کر اپنی قومی شناخت کھو دیں گے۔ ان کے قبضے میں کرۂ ارض کا کوئی ٹکڑا نہیں ہوگا۔ وہ صرف انسانوں کے ایک گروہ کے طور پر جانے پہنچانے جائیں گے کیونکہ ان کی قومی شناخت ختم ہو جائے گی۔ اسرائیل کو ایسے خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے لیکن ماضی سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے یہ خواب ماضی میں بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے تھے۔ اسرائیل کی ایک سابقہ وزیراعظم گولڈا میئر سے جب کسی نے سوال کیا کہ اسرائیل ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام پر کیوں راضی نہیں ہوتا؟ تو اس نے فوراً جواب دیا کہ ''کون سے فلسطینی اور کون سی فلسطینی ریاست؟ اردن کے لوگ فلسطینی ہیں اور اردن اُن کی ریاست ہے‘‘۔
اسرائیل فلسطینیوں کوایک عرصہ تک دہشت گرد قرار دے کر اُن سے بات چیت سے انکاری رہا‘ لیکن آخر کار اسے فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت پی ایل او سے نہ صرف مذاکرات کرنا پڑے بلکہ ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست کے لیے فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرنا پڑا۔ اس حق کو اقوامِ متحدہ اور پوری بین الاقوامی برادری بھی تسلیم کرتی ہے۔ دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ مشرقی بیت المقدس اور غزہ کی پٹی پر مشتمل فلسطینی اتھارٹی‘ جس کے موجودہ صدر محمود عباس ہیں‘ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم ہے۔ اسرائیل پوری دنیا کے سامنے فلسطینیوں کو ایک قوم تسلیم کرکے ان کے ایک پوری طرح آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے حق کو تسلیم کر چکا ہے۔ فلسطینیوں نے یہ حق اپنی جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے منوایا ہے۔ اس وقت ہر طرف سے یہ آواز آ رہی ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ بھی ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کو امن کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے اسرائیل کا غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانے اور فلسطینیوں کو بحیثیت ایک قوم ختم کرنے کا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔