ایک طرف صوبوں (خصوصاً چھوٹے صوبوں) کو شکایت ہے کہ 15سال بعد بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا گیا اور اس ترمیم کے تحت جن اداروں اور محکموں کو صوبوں کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ‘انہیں پوری طرح صوبوں کے اختیار میں نہیں دیا گیا‘ مثلاً تعلیم اور صحت۔ اور جن محکموں اور اداروں کو صوبوں کے حوالے کیا بھی گیا ہے انہیں چلانے کیلئے مرکز مطلوبہ فنڈز دینے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف چند حلقوں کی طرف سے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کے حق میں بیان جاری کیے جا رہے ہیں۔ ان بیانات کی بنیاد یہ دلیل ہے کہ اس ترمیم میں کچھ خامیاں ہیں جن کا دور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان سے مرکز اور صوبوں کے باہمی تعلقات اور تعاون کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
ایک قومی انگریزی اخبار میں خبر چھپی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلیاں لانے پر غور کر رہی ہے اور اسے فروری 2024ء کے انتخابات کیلئے پارٹی منشور میں بطور ایجنڈا شامل کیا جائے گا‘ لیکن مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور منشور کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم ختم کرنے پر کسی سطح پر پارٹی میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی‘ تاہم نگران حکومت کے مشیر برائے فنانس ڈاکٹر وقار مسعود نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی خاص طور پر این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن) کے نویں ایوارڈ کے تحت مرکز اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کے فارمولے کو تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ نے 2010ء میں متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ جن اراکینِ پارلیمنٹ نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا‘ ان میں مسلم لیگ (ن) کے منتخب اراکین بھی شامل تھے۔ اس لیے اس سیاسی جماعت کی طرف سے ترمیم میں تبدیلیوں کا عندیہ ایک عجیب بات نظر آتی ہے‘ تاہم یہ غیر متوقع نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی سیاسی سوچ اور عمل کے اعتبار سے ہمیشہ اس لابی کا حصہ رہی ہے جو صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو مضبوط رکھنے کی خواہش مند رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس لابی کو مقتدرہ کی حمایت اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نمایاں پذیرائی حاصل ہے اور اس سیاسی حقیقت کا گاہے گاہے بیانات کے ذریعے اظہار بھی ہوتا رہتا ہے مثلاً مقتدرہ ایک بیان میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کو 1966ء کے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکاتی فارمولے سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے چکی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان ان الفاظ میں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے مرکز کو مالی طور پر صوبوں کا محتاج اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کو ڈکٹیٹر بنا دیا ہے‘ اس آئینی ترمیم کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ بیوروکریسی اور ماہرینِ معاشیات کا ایک ایسا گروپ بھی ہے جو اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جس پر ابھی تک مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا گیا‘ کو ملک کے تمام معاشی مسائل کی جڑ قرار دیتا ہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کوئی ایسا صحیفہ نہیں کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اس میں کئی الجھنیں اور پیچیدگیاں ہوں گی جن کے بارے میں عام بحث میں نشاندہی کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جا سکتا ہے‘ اس کالم کا مقصد اس ترمیم کے نقائص اور محاسن کی نہ ختم ہونے والی بحث میں پڑنا نہیں بلکہ اس ترمیم کے ناقدین‘ جن کی اکثریت مسئلے کو اس کے تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق سے الگ رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے‘ کو یاد دلانا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو اگرچہ 2010ء میں آئینِ پاکستان کا حصہ بنایا گیا تھا لیکن اس کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی کے فوراً بعد پڑ گئی تھی جب برطانوی حکومت کے قائم کردہ ایک تحقیقاتی کمیشن نے اپنی سفارشات میں بتایا تھا کہ 1857ء کے واقعات‘ جنہیں ہر برطانوی حکومت بغاوتِ ہند کے نام سے پکارتی ہے‘ کا اصل سبب ایسٹ انڈیا کمپنی کا سخت مرکزیت (Centralization) پر مبنی گورننس کا نظام تھا جس میں ہندوستان کے بارے میں ایک بنیادی اور سب سے اہم حقیقت کو نظرانداز کر دیا گیا تھا کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذاہب کے پیروکار‘ الگ الگ زبانیں بولنے والے‘ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے اور رنگ برنگ ثقافت کے مالک علیحدہ اور الگ تھلگ مخصوص تشخص کے دلدادہ لوگ بستے ہیں اور انہیں ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘ اس لیے جب ہندوستان کو ایک باقاعدہ نوآبادی قرار دے کر اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ کے ماتحت کر دیا گیا تو انگریزوں نے ہندوستان میں عدم مرکزیت پر مبنی گورننس سسٹم رائج کیا۔ 1909ء میں پہلی مرتبہ صوبوں کی تخلیق اور اس کے بعد 1935ء میں وفاقیت (Federalism) کی بنیاد پر آئین کا نفاذ اسی عمل کے تسلسل کا نتیجہ تھا مگر پارلیمانی اور وفاقی نظام کا دعویٰ کرنے کے باوجود انگریز عملی طور پر مرکز کو صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بااختیار رکھنے پر اس لیے مُصر تھے کہ اس سے ان کے نوآبادیاتی مفادات کو تحفظ ملتا تھا‘ مگر تحریک آزادی میں شامل سیاسی جماعتیں‘ جن میں کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں شامل تھیں‘ صوبوں کی داخلی خود مختاری کے دائرے کو وسیع کرنا چاہتی تھیں۔
آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں کا سب سے اہم مسئلہ صوبائی خود مختاری رہا ہے اور اب تک ہے۔ ہندوستان نے ریاستوں (صوبوں) کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خود مختاری دے کر اور جمہوری نمائندہ نظام کو بلا تعطل جاری رکھ کر اس مسئلے کو حل کر لیا لیکن پاکستان میں جمہوری نظام کے تعطل کی وجہ سے وہ اقدام نہ کیے جا سکے جو صوبوں کو مطمئن کر سکتے تھے۔ اس کا خمیازہ قوم کو 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ 1973ء کے آئین میں صوبوں کو ماضی کے کے مقابلے میں زیادہ صوبائی خود مختاری دی گئی‘ لیکن ضیا الحق کی حکومت (1977-88ء) اور اس کے بعد پرویز مشرف کی حکومت (1999-2008ء) کے دوران بالترتیب آٹھویں اور 17ویں آئینی ترمیم نے 1973ء کے آئین کے تحت دیے گئے پاکستانی نظام کو وفاقی پارلیمانی سے تقریباً صدارتی نظام میں بدل دیا تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے 1973ء کے آئین میں ان غیرمقبول تبدیلیوں کو دور کر کے پاکستان میں نہ صرف پارلیمانی جمہوریت کو بحال کیا بلکہ صوبوں کی داخلی خود مختاری کی حدود کو وسیع کر کے اسے صحیح معنوں میں وفاقی نظام میں تبدیل کر دیا۔ یہ تبدیلی پاکستان کی سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاقِ رائے کی بنیاد پر کی گئی۔ اگر اسے اب ختم کر دیا گیا یعنی اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیاں کی گئیں اور وہ بھی ایک نگران حکومت کے دور میں تو یہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کے درمیان ملک کے آئینی اور قانونی نظام پر اتفاقِ رائے کو ختم کرنے کے مترادف ہو گا۔ ڈر ہے کہ اس سے نہ صرف ملک میں جمہوریت بلکہ خود ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم میں کسی بھی یکطرفہ تبدیلی پر چھوٹے صوبوں سے سخت رد عمل آئے گا۔ اپریل 2020ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں اس مسئلے کو چھیڑا گیا تھا تو اپوزیشن پارٹیوں ‘پیپلز پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بی این پی نے اس پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا تھا‘ اس لیے مضبوط مرکز کے حامی عناصر‘ جن کے رویے کی وجہ سے ملک 1971ء میں دولخت ہوا تھا‘ اس بات کا احساس کریں کہ آئین کی رو سے وفاقی اکائیوں کا جو حق ہے وہ ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔ اگر ایسا کیا گیا تو وفاق کے استحکام کیلئے یہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔