برصغیر پاک و ہند میں مقامی حکومتِ خود اختیاری (لوکل گورنمنٹ) کے اولین ادارے آریاؤں نے اپنی آمد کے بعد تقریباً 1000 تا 2000 قبل از مسیح کے زمانے میں قائم کیے تھے۔ اُس وقت کا لوکل گورنمنٹ سسٹم موجودہ سسٹم سے بہت مختلف تھا۔ اس میں گاؤں کو نہ صرف ایک انتظامی بلکہ سیاسی اور جوڈیشل ادارے کی حیثیت سے بھی معاشرے کی ایک بنیادی اکائی کا درجہ حاصل تھا۔ پنچایت‘ جسے اُس وقت کی مقامی حکومت کہا جاتا تھا‘ نہ صرف گاؤں کے باشندوں کی سکیورٹی اور ضروریاتِ زندگی کی بہم رسانی کی ذمہ داری اس ادارے پر تھی بلکہ اس کے فرائض میں لوگوں کے باہمی جھگڑوں کو نمٹانا‘ کاشتکاری کے لیے زمین الاٹ کرنا اور ٹیکس جمع کرکے مرکزی حکومت کو پہنچانا بھی شامل تھا۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ قدیم ہندوستان کی لوکل گورنمنٹ کے اس سسٹم میں آریاؤں سے لے کر مغلوں تک مرکزی حکومتوں کی بار بار تبدیلی کے باوجود اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہر اور گاؤں میں اتنا فاصلہ تھا کہ شہر یعنی مرکز میں حکومتوں کی آئے دن کی تبدیلی کا گاؤں کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ ملک کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی سماجی‘ معاشی اور سیاسی زندگی شہر یعنی مرکز میں حکومتوں کی تبدیلی سے منسلک نہیں ہوتی تھی کیونکہ ریاست کو صرف ٹیکس اور ریونیو سے سروکار تھا‘ جسے پنچایتیں اکٹھا کرکے ریاست کے مقرر کردہ اہلکاروں کے حوالے کر دیتی تھیں۔
اس صورتحال کو کارل مارکس نے برٹش انڈیا پر اپنے مضامین میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ اس ملک پر ہزاروں سال کے عرصے پر محیط بے شمار قوموں‘ قبیلوں اور حملہ آوروں نے حکومت کی مگر سب اپنی علیحدہ شناخت کھو کر ضم ہو گئے۔ ہندوستان کے سماجی‘ اقتصادی اور انتظامی سسٹم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ملک کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی خود کفیل اور خود اختیار زندگی ویسے کی ویسے رہی کیونکہ مرکزی حکومتوں کا رویہ عدم مداخلت (Non Intrusive) کے اصول پر مبنی تھا‘ لیکن 19ویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں برطانیہ نے ہندوستان میں لوکل گورنمنٹ کے جس نظام کو حتمی شکل دے کر نافذ کیا‘ وہ پہلے سے موجود نظام سے بالکل مختلف تھا۔ اس کا مقصد نوآبادیاتی ریاست‘ جو پہلے ہی مرکزیت (Centralization) کی بنیاد پر مضبوط ادارہ بن چکی تھی‘ کے مفادات کو تحفظ دے کر اسے مزید مضبوط بنانا تھا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے انگریز پہلے ہی کئی اہم تبدیلیاں لا چکے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم زمین کے ایک نئے نظام کا نفاذ تھا۔ انگریزوں سے قبل ہندوستان میں زمین پر ذاتی ملکیت کا تصور نہیں تھا۔ تمام زمین بادشاہ کی ملکیت سمجھی جاتی تھی جو اسے اپنے حامی منصب داروں میں تقسیم کرتا تھا مگر منصب داروں کی وفات کے بعد یہ زمین ان کی اولاد کو منتقل نہیں ہوتی تھی‘ لیکن انگریزوں نے زمین کی ذاتی ملکیت کا نظام نافذ کرکے موروثی جاگیرداروں کے ایک نئے طبقے کو پیدا کیا جو نہ صرف اس کے وفادار تھے بلکہ انگریز حکام‘ جو تعداد میں بہت کم تھے اور عام لوگوں کے درمیان بفر کے طور پر کام کرتے تھے۔ پاکستان اور ہندوستان میں لوکل گورنمنٹ پر ایک مستند کتاب The foundations of local self-government in India, Pakistan and Burma کے مصنف ہیوگ ٹنکر (Hugh Tinker) کے مطابق ہندوستان میں لوکل گورنمنٹ کا نظام قائم کرتے وقت انگریزوں کے سامنے دو مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ سفید پوشوں پر مشتمل ایک گروہ پیدا کر کے انگریز حکام اور کروڑوں ہندوستانیوں کے درمیان رابطے کا کام ہو سکے‘ اور دوسرے ملک میں اُبھرتی ہوئی تحریک آزادی کے مقابلے میں مقامی متبادل قیادت کھڑی کی جا سکے۔ یہ محض حسنِ اتفاق نہیں کہ انگریز نے ہندوستان میں لوکل گورنمنٹ کے نئے نظام کی بنیاد اس وقت (19ویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے ابتدائی برسوں میں) رکھی جب وہ برصغیر کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکز میں انتہائی مرکزیت پر مبنی ایک طاقتور ریاستی ڈھانچہ قائم کر چکا تھا‘ اور ایشیا اور افریقہ کے دیگر حصوں میں یورپی نوآبادیاتی نظام کے خلاف قوم پرستی کی لہر سے متاثر ہو کر ہندوستان میں بھی آزادی کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ بنگال اس قسم کے عناصر کا خاص طور پر مرکز تھا جہاں بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی پہلی مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ برطانوی حکومت نے اس تحریک کو سختی سے کچل دیا لیکن ملک کے دیگر حصوں میں صوبوں کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کے نئے نظام کی بنیاد رکھی تاکہ مقامی سطح پر با اثر لوگوں کو معاملات ان کے ہاتھ میں دے کر فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کا موقع دے تاکہ قومی سطح پر آزادی کے حق میں ابھرتی ہوئی قوم پرست تحریک کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔ لوکل گورنمنٹ کے نئے نظام کے قیام کا مقصد ہندوستان میں انگریزوں کے مفادات کی نمائندہ مرکزی حکومت کو‘ جو پہلے ہی بہت طاقتور تھی‘ مزید طاقتور بنانا تھا اور اس کے لیے ''وفادار‘‘ سفید پوش لوگوں پر مشتمل ایک نئے طبقے کو پیدا کیا گیا۔ انگریز اس سلسلے میں اتنے محتاط تھے کہ ابتدا میں لوکل گورنمنٹ اداروں کے تقریباً تمام اراکین کو نامزدگی کی بنیاد پر مقرر کیا جاتا تھا۔ بعد میں نصف کے قریب اراکین کو انتخاب کے ذریعے ان اداروں میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی مگر اس کے لیے آمدنی جائیداد ٹیکس کی ادائیگی اور تعلیم کی شرائط عائد کرکے فرنچائز کو محدود کر دیا گیا تاکہ صرف وفادار لوگ ہی ان اداروں میں داخل ہو سکیں۔ اس طرح انگریزوں نے صوبوں میں لوکل گورنمنٹ ادارے قائم کرکے دراصل مرکز میں ارتکازِ اختیارات پر مبنی حکومت کو مزید مضبوط کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ایوب خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں لوکل گورنمنٹ سسٹم میں جو تبدیلیاں کی گئیں‘ ان کے پیچھے بھی یہی محرکات تھے مثلاً ایوب خان نے 1959ء میں ملک میں مقامی سطح پر ''بنیادی جمہوریتوں‘‘ کے نام سے لوکل گورنمنٹ کا ایک نیا نظام متعارف کروایا‘ مگر مرکز میں مارشل لا کے نفاذ کو برقرار رکھا۔ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کی تشہیر کرتے ہوئے اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک میں ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جو ''عوام کے مزاج کے مطابق ہو‘ عوام اسے سمجھ سکیں اور اس پر عمل کر سکیں‘‘ لیکن ایوب خان ایک ایسے دستور (1956ء) کو منسوخ کرکے برسر اقتدار آیا تھا جس کے تحت پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کے ساتھ وفاقی پارلیمانی نظام قائم کیا تھا۔ اس کے برعکس ایوب خان نے 1962ء میں ایسا آئین نافذ کیا جو کہنے کو صدارتی تھا مگر حقیقت میں صدر (ایوب خان) کو مرکز میں تمام اختیارات کا مالک بناتا تھا۔ بنیادی جمہوریتوں کا نظام اس نیم آمرانہ نظام کا نہ صرف تحفظ تھا بلکہ اس کے ذریعے پارلیمنٹ کو بے اختیار کر کے ریاست کو بھی ایک وفاقی سے وحدانی شکل میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ''ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں‘‘ کے نظام کا مقصد مقامی سطح پر جمہوریت‘ جمہوری اقدار اور جمہوری اداروں کے استحکام کے بجائے اپنے غیر آئینی نظام کے لیے جواز مہیا کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف 10 سال کے عرصہ کے بعد اس کے دیے ہوئے آئین کی منسوخی کے ساتھ ہی اس کا بنیادی جمہوری نظام بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ (جاری)