ایوب خان کے بعد لوکل گورنمنٹ سسٹم کو نافذ کرنے والا دوسرا حکمران ضیا الحق تھا۔1979ء ایکٹ کے تحت لوکل گورنمنٹ کے اس سسٹم کا فوکس یونین کونسلز اور ضلع کونسلز تھیں۔ اپنے پیشرو کے برعکس ضیا الحق نے اس سسٹم کو اسمبلیوں اور صدرِ مملکت کے انتخاب کے لیے بطور حلقۂ نیابت استعمال نہیں کیا تھا‘ مگر ایوب خان حکومت کی طرح ضیا الحق نے بھی یہ انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر منعقد کروائے‘ بلکہ مارشل لا اٹھانے کے بعد 1985ء میں اسمبلیوں کے انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر ہی منعقد ہوئے تھے۔ ایوب خان کی طرح ضیا الحق بھی روایتی سیاسی پارٹیوں کی جگہ لوکل گورنمنٹ اداروں کے ذریعے متبادل قیادت کو آگے لانے کے حق میں تھے اور اس کے لیے ملک میں ایک لمبے عرصے تک نہ صرف لوکل گورنمنٹ کے اداروں بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کروانا چاہتے تھے کیونکہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں ایک وفاقی اور پارلیمانی نظام حکومت پر اتفاق تھا جبکہ غیر جمہوری حکومتیں اپنی ہیئت ترکیب اور سوچ کے اعتبار سے مرکزیت پسند تھیں۔ضیا الحق کے دور میں آٹھویں آئینی ترمیم اور پرویز مشرف کے عہد میں 17ویں آئینی ترمیم اس کا ثبوت ہے۔ ان دونوں ترامیم کے ذریعے نہ صرف پارلیمنٹ (وزیر اعظم) کے اختیارات صدر کو منتقل کیے گئے بلکہ بہت سے شعبوں میں صوبوں کے معاملات میں بھی مرکز کو مداخلت کا موقع فراہم کیا گیا‘ حالانکہ دونوں حکمرانوں نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو نہ صرف بحال کیا بلکہ اس میں اہم تبدیلیاں بھی کیں‘ مگر ان اقدامات سے مرکز کے اختیارات میں کمی نہیں ہوئی تھی بلکہ آئین میں ترامیم کے ذریعے ان کو صوبوں کے مقابلے میں اور بھی مضبوط کر لیا۔ اس طرح ملک کے پہلے مارشل لا کی طرح ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں بھی مرکز مضبوط اور صوبے کمزور تھے بلکہ پرویز مشرف کے Devolution of Power Plan 2001 کے تحت صوبوں کے اختیارات کو لوکل گورنمنٹ اداروں کو منتقل کرنے سے صوبے اور بھی کمزور ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں پرویز مشرف کے سسٹم پر تنقید میں الزام عائد کیا جاتا تھا کہ صوبوں کو بائی پاس کرتے ہوئے ضلعی سطح پر لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو مزید اختیارات منتقل کرنے کا مقصد صوبوں کو حاصل داخلی خود مختاری سے محروم کر کے مرکزی حکومت کو مزید با اختیار بنانا ہے۔ مشرف کے پلان کو صوبائی داخلی خود مختاری کے خلاف سازش کا نام دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مرکز میں انتہا درجے کے ارتکازِ اختیارات (یونٹی آف کمانڈ) میں کسی قسم کی کمی یا تبدیلی کیے بغیر مقامی سطح پر (لوکل گورنمنٹ) اداروں کے اختیارات کو وسیع کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘ اور اس کی قیمت صوبوں کو چکانا پڑ رہی تھی کیونکہ مرکز اپنے اختیارات میں کسی قسم کی کٹوتی کرنے کے لیے تیار نہ تھا‘ بلکہ آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ضیا الحق اور 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف کے دور میں مرکز نے اپنے اختیارات میں اور بھی اضافہ کر لیا تھا۔
جہاں تک صوبوں کا تعلق تھا‘ انگریزوں کے دور سے آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک صوبے 80 سے 90 فیصد تک مرکز کی طرف سے دی جانے والی گرانٹس کے محتاج رہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ساتھ مرکزی فنڈز میں سے صوبوں کے حصے میں اضافہ تو کر دیا گیا ہے لیکن دو درجن کے قریب ڈیپارٹمنٹس اور ایک سو سے زائد اداروں (کارپوریشنز) کو صوبوں کی تحویل میں دے کر ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے‘ مگر مرکز صوبوں کو تفویض کی گئی ان نئی ذمہ داریوں کو (18ویں آئینی ترمیم کے تحت) پورا کرنے کے لیے مطلوبہ مالی وسائل مہیا کرنے میں ناکام رہا۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے چیلنج نے صوبوں پر مزید مالی بوجھ ڈال دیا ہے کیونکہ لا اینڈ آرڈر صوبائی ذمہ داری ہے‘ لیکن کسی صوبے کی پولیس فورس کے پاس جدید ترین اور مہلک ہتھیاروں سے مسلح دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ حد تک نہ تو وسائل ہیں‘ نہ ہتھیار ہیں اور نہ ہی انہیں اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب تربیت دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں دہشت گردی کے خلاف مرکزی لا انفورسمنٹ ایجنسیوں (فوج‘ رینجرز اور ایف سی) کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔
اب صوبوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ان ایجنسیوں کے آپریشنز پر اٹھنے والے اخراجات میں حصہ ڈالیں لیکن صوبوں کی طرف سے انکار کیا جا رہا ہے اور وہ اس کی وجہ کمزور مالی حالت بتاتے ہیں۔ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کے کمزور رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں مضبوط مرکز کی حامی قوتوں نے اسے ہمیشہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ پالیسی انہیں انگریزوں سے ورثے میں ملی ہے‘ جنہوں نے 19ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان میں قوم پرست قومی قیادت کے خلاف مقامی سطح پر وفادار اور تابعدار لوگوں کے ایسے طبقے کو پیدا کرنے کی کوشش کی جو ان کے نوآبادیاتی مفادات کا تحفظ کر سکتا تھا۔ ایوب خان نے ''بنیادی جمہوریتوں‘‘ کے نظام کے تحت مقامی طور پر (اس کے دعوے کے مطابق) جمہوریت کی بنیاد رکھی‘ لیکن جمہوریت کے لیے دو لازمی شرائط یعنی سیاسی پارٹیوں کی موجودگی اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قانون ساز اسمبلیوں کے براہِ راست انتخابات کو پورا نہیں کیا گیا تھا بلکہ ملک میں ایک ایسا آئین (1962ء) نافذ کیا گیا جس کے تحت تمام اختیارات مرکز کے ہاتھ میں تھے اور سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد تھی۔ ضیا الحق نے نہ صرف لوکل گورنمنٹ کے اداروں بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی سیاسی پارٹیوں کی شرکت ممنوع قرار دی۔ پرویز مشرف نے ضلعی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا ایک سسٹم نافذ کیا مگر مرکز میں انتہائی مرکزیت پر مبنی گورننس قائم رکھی۔ دیگر الفاظ میں ان تینوں حکمرانوں نے آمریت کے زیر سایہ مقامی سطح پر جمہوریت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ان میں سے کسی کے بھی لوکل گورنمنٹ کے نظام کو عوامی پذیرائی اور سیاسی اونرشپ حاصل نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ سے ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ سسٹم عدم توجہی کا شکار ہے۔
سیاسی پارٹیاں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے انتخابی منشور میں اسے ترقی دینے اور مضبوط بنانے کا وعدہ کرتی ہیں لیکن برسر اقتدار آ کر افسوسناک بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جب تک سیاسی پارٹیوں کے مائنڈسیٹ میں تبدیلی نہیں آتی‘ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کی افزائش اور ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزوں کے زمانے سے لوکل گورنمنٹ کا شعبہ صوبوں کے پاس چلا آ رہا ہے اس لیے یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے نافذ کریں‘ اسے ترقی کرنے اور جڑیں پکڑنے کا موقع دیں تاکہ قومی سیاست کے دھارے میں یہ ادارے اپنا کردار ادا کر سکیں لیکن پاکستان میں تین غیر جمہوری حکومتوں کے تین دہائیوں پر محیط طویل عرصے کے دوران مرکز کے ہاتھوں اس بنیادی جمہوری نظام کے سیاسی استحصال نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب اسے اس کی اصل شکل میں پنچایتی نظام میں واپس بحال کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے‘ جس میں تمام سیاسی پارٹیاں حصہ لیں تاکہ ایک ایسا نظام قائم ہو سکے جو صحیح معنوں میں جمہوریت کی نرسری کے طور پر کام کر سکے۔