پاکستان کے برعکس بھارت میں صوبائی (ریاستی) انتخابات کا کیلنڈر پارلیمانی (مرکزی) انتخابات سے علیحدہ ہے۔ اس لیے بھارت کی 28 ریاستوں کی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد وہاں مرکزی انتخابات کا انتظار کیے بغیر اپنی مقررہ مدت پر انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت بھی ایک وفاقی ریاست ہے اور پاکستان کے صوبوں کی طرح وہاں ریاستیں بھارتی وفاق کی اکائیاں ہیں۔ ان کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات اتنے ہی اہم ہیں جتنے ہمارے ہاں صوبائی انتخابات‘ تاہم بعض ریاستی انتخابات بوجوہ خصوصی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں اور ان کے نتائج نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی موضوعِ بحث بن جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ بھارت کی پانچ ریاستوں میزورام‘ راجستھان‘ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ ان میں سے تین یعنی راجستھان‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگرس کے مقابلے میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے حالانکہ کانگرسی حلقے اپنی پارٹی کی کامیابی کے بارے میں بہت پُرامید تھے کیونکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں گزشتہ پانچ برس سے کانگرس کی حکومت تھی اور مدھیہ پردیش میں بھی 2020ء تک کانگریس کے کمل ناتھ بحیثیت وزیراعلیٰ حکومت کر چکے ہیں۔ اگست تک کانگرس پُراعتماد تھی کہ ان چاروں ریاستوں میں اس کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ بھارت کے سیاسی پنڈت بھی ان ریاستوں میں کانگرس کی جیت کے حامی تھے لیکن جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو نام نہاد ہندی بیلٹ (شمالی بھارت) میں واقع تین ریاستوں یعنی راجستھان‘ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے کانگرس کے مقابلے میں بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی اور جنوبی بھارت میں واقع ریاست تلنگانہ میں کانگرس جیتی۔
ان ریاستی انتخابات کی روشنی میں زیر بحث پہلا سوال یہ ہے کہ جب ہر طرف سے کانگرس کی جیت کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں تو وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی نے ان ریاستوں میں ایک دفعہ پھرکامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان ریاستی انتخابات کا انعقاد اس وقت ہوا ہے جب پارلیمانی (لوک سبھا) انتخابات (مئی 2024ء) میں صرف چھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے‘ اس لیے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ان ریاستی انتخابات کے نتائج آنے والے پارلیمانی انتخابات پر کیا اثر ڈالیں گے؟ تیسرا سوال اپوزیشن کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ خصوصاً کانگرس‘ جس میں راہول گاندھی کی 4000کلو میٹر ''بھارت جوڑو‘‘ یاترا کے ذریعے نئی روح پھونکنے کی کوشش کی گئی تھی‘ کا بھارتی سیاست میں آئندہ کیا کردارہوگا؟ تقریباً 28اپوزیشن سیاسی پارٹیوں پر مشتمل کانگرس کی سربراہی میں انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسو الائنس (I.N.D.I.A) کے قیام سے نئی قیاس آرائیوں کی ہوا چل پڑی تھی کہ کانگرس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کا یہ سیاسی اتحاد بی جے پی کو ٹف ٹائم دے گا۔ نومبر کے ریاستی انتخابات کو اس ضمن میں بطور لٹمس ٹیسٹ پیش کیا جا رہا تھا مگر چھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ ہندی بیلٹ میں اس کا کوئی توڑ نہیں۔ اب تو اپوزیشن کے اس سیاسی اتحاد خصوصاً کانگرس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
بھارت کے ان ریاستی انتخابات اور ان کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے اس سوال کا جواب حاصل کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ کیا ان میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کیلئے بھی سیکھنے کو کچھ ہے‘ کیونکہ سخت معاندانہ تعلقات کے باوجود دونوں ملکوں کے سیاسی نظام ایک دوسرے کے ساتھ گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ اس لئے دونوں ایک دوسرے کے ہاں ہونیوالے سیاسی واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن پیشتر اسکے کہ ان سوالات پر بحث کی جائے‘ بھارتی سیاست کے بارے میں ایک مستقل حقیقت‘ جسے نومبر کے ریاستی انتخابات کے نتائج نے ایک دفعہ پھر واضح کر دیا ‘ کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ ہے شمال اور جنوب کی تقسیم۔ اس وقت بھارت کی 28ریاستوں میں سے 12میں بی جے پی کی حکومت ہے جبکہ کانگرس کی صرف تین ریاستوں میں‘ لیکن بی جے پی کی 12ریاستوں میں سے ایک بھی جنوبی بھارت میں واقع نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شمالی بھارت خصوصاً ہندی بیلٹ میں مودی کی لہر چھائی ہوئی ہے لیکن جنوبی بھارت میں یہ غیر موثر ہے۔ اگرچہ گزشتہ دس برسوں کے دورِ اقتدار کے دوران بی جے پی نے وزیراعظم مودی کی سرکردگی میں جنوبی بھارت میں قدم جمانے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بی جے پی نے ریاستی اور یونین‘ دونوں سطح پر اپنے حق میں ڈالے جانیوالے ووٹوں کی شرح میں اضافہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور بھارت کے اس حصے میں واقع بعض ریاستوں میں برسراقتدار مخلوط حکومتوں میں بی جے پی بھی شامل ہے مگر ابھی تک ہندی بیلٹ کی طرح جنوبی بھارت میں مودی کا جادو نہیں چل سکا۔ اس کے مقابلے میں کانگرس نے گزشتہ مئی میں کرناٹک میں اور اب تلنگانہ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جنوبی بھارت کی ایک اور اہم ریاست آندھرا پردیش میں اپنے پراسپیکٹس بہتر بنانے کے امکانات پیدا کر لیے ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو نومبر کے ریاستی انتخابات نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ شمالی بھارت یعنی ہندی بیلٹ کی پارٹی ہے اور جنوبی بھارت میں اسے وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جو بھارت کے شمال‘ شمال جنوب اور شمال مشرقی علاقوں میں حاصل ہوئی ہے۔
ہندی بیلٹ کی تین ریاستوں یعنی راجستھان‘ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگرس کی شکست اور بی جے پی کی کامیابی کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ کانگرس کے ووٹ بینک میں کمی نہیں ہوئی۔ 2018ء کے ریاستی انتخابات میں اسے جس تناسب سے ووٹ ملے تھے وہ تقریباً وہی رہا ہے البتہ بی جے پی نے 2018ء کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں اور یہ ووٹ خواتین اور ''دیگر‘‘ (Other) کیٹگریز‘ (قبائلی) نچلی ذات کے اور دوسری پارٹیوں سے ناراض ہونیوا لوں کے ہیں۔ بی جے پی نے ان پر فوکس کیا اور چونکہ وسائل اور تنظیم کے لحاظ سے بی جے پی بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں سے آگے ہے‘ اسلئے اسے ان لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ خاص طور پر جب کانگرس نے اس طرف توجہ ہی نہ دی ہو۔ بی جے پی نے ان گروپس کی حمایت حاصل کر کے اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا اور کانگرس کو شکست دے دی۔ بی جے پی نے اس دفعہ ہندوتوا کارڈ بھی زیادہ استعمال نہیں کیا بلکہ فلاحی کاموں‘ خصوصاً خواتین کیلئے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی جیت میں سب سے زیادہ حصہ خواتین کا ہے۔ اس کے برعکس کانگرس نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی نچلے اور غریب طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی نمایاں کام نہیں کیا اور انتخابی مہم میں راہول گاندھی نے مودی پر ذاتی حملوں اور عوام سے وعدوں پر زیادہ فوکس کیا۔ مبصرین کی رائے میں ان انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ عوام سیاسی مخالفین کی تضحیک اور کیڑے نکالنے والے امیدواروں کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ووٹ مانگنے والے امیدوار اور سیاسی پارٹیاں موجودہ حالات میں درپیش عوامی مسائل کے حل کیلئے نئے منصوبے پیش کریں۔ کانگرس ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا تمام تر زور یا تو اپنے پرانے ادوار میں کیے گئے اقدامات پر تھا یا پھر نریندر مودی کی ذات پر براہِ راست حملوں پر‘ مگر ان ریاستوں کے عوام نے ان الزامات کو رد کرکے اور بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈال کر ثابت کر دیا کہ نریندر مودی اب بھی ہندی بیلٹ میں سب سے زیادہ پاپولر لیڈر ہے۔ (جاری)