"DRA" (space) message & send to 7575

بھارتی ریاستی انتخابات: قومی‘ علاقائی اور عالمی مضمرات… (2)

بھارت کے ریاستی انتخابات کے نتائج آنے سے قبل انہیں اگلے برس کے پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل کہا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی مرکز میں دو تہائی اکثریت سے حکومت قائم ہونے اور اس کے آدھی کے قریب بھارتی ریاستوں میں بھی برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے اگلے پارلیمانی انتخابات میں اس کی کامیابی کو یقینی قرار دیا جا رہا تھا۔ اپوزیشن نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو لگاتار تیسری ٹرم سے محروم کرنے کیلئے پوری تیاری کر رکھی تھی۔ اس میں 28پارٹیوں پر مشتمل ایک گرینڈ سیاسی اتحاد آئی این ڈی آئی اے (I.N.D.I.A) کا قیام بھی شامل ہے۔ اس اتحاد میں بھارتی سیاست کی ہیوی ویٹ شخصیات مثلاً ترینامول کانگرس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی‘ ہندی بیلٹ میں بی جے پی اور کانگرس کے بعد سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال اور سماج وادی پارٹی (SP) کے رہنما اکھلیک یادیو بھی شامل ہیں۔ اس اتحاد کی قیادت کانگرس کے ہاتھ میں ہے جسے راہول گاندھی نے 2019ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد اپنی سابقہ پوزیشن پر بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ برس مئی میں جنوبی بھارت کی ایک اہم ریاست کرناٹکا میں بی جے پی کو ریاستی انتخابات میں شکست دے کر کانگرس نے بھارت کے سیاسی حلقوں میں امید پیدا کر دی تھی کہ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگرس نہ صرف جنوبی بھارت بلکہ اس کے گڑھ شمالی بھارت کی ہندی بیلٹ میں بھی بی جے پی پر بازی لے جائے گی۔ راہول گاندھی کی ''بھارت جوڑو‘‘ یاترا کو بھارت بھر میں اچھی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے راہول گاندھی کو لوک سبھا کے آئندہ انتخابات کے لیے نااہل قرار دینے کی ناکام کوشش سے راہول گاندھی کا سیاسی قد اور بڑھ گیا تھا۔ معاشی ترقی کے باوجود بھارت میں پڑھے لکھے لوگوں میں بے روزگاری کے اضافے اور آسام کے فسادات نے بی جے پی کے پاپولیرٹی گراف کو کافی نیچے کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے اپوزیشن کو یقین تھا کہ بنگال میں ممتا بینر جی‘ پنجاب میں کیجریوال‘ اُتر پردیش میں اکھلیک یادیو‘ مہاراشٹر میں شیو سینا کے اُدھیو ٹھاکرے اور شرد پوار کی نیشنل کانگرس (NCP) کو ملا کر مودی ویو (Wave) کا رُخ موڑا جا سکتا ہے‘ لیکن نومبر کے ریاستی انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ مودی ویو اب بھی مضبوط ہے اور آئندہ برس مئی کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر یہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں تو بھارت کے پہلے وزیراعظم کانگرس کے پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد بی جے پی کے نریندر مودی تیسری بار لگاتار بھارتی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہونے والے واحد رہنما ہوں گے‘ اگرچہ اس بات کا امکان ہے کہ ریاستی انتخابات کے چھ ماہ بعد منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو2019ء کی طرح بھاری کامیابی حاصل نہ ہو‘ لیکن ریاستی انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹیاں مل کر بھی مودی ویو کے آگے بند نہیں باندھ سکتیں۔
پہلے کی طرح اس دفعہ بھی اس ناکامی کی ذمہ داری کانگرس پر ڈالی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ 28 پارٹیوں کے اس اتحاد کی شکست کی بڑی وجہ کانگرس کا دیگر اتحادی پارٹیوں کے بارے میں متکبرانہ رویہ اور ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔ اُتر پردیش میں کانگرس اور سماج وادی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی کی وجہ سے بھارت کی (آبادی کے لحاظ سے) اس سب سے بڑی ریاست میں اپوزیشن اتحاد کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے علاوہ کانگرس کو زعم تھا کہ بھارت میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال بالخصوص مذہبی اقلیتوں میں بی جے پی کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات سے بی جے پی کا ووٹ بینک سکڑ گیا ہے‘ اور راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اس کی حکومتوں کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے لوگ کانگرس کو بی جے پی پر ترجیح دیں گے‘ مگر بی جے پی کی طرف سے میکرو لیول پر آر ایس ایس کے رضا کاروں کو حرکت میں لا کر ان طبقات کے ووٹ حاصل کرنے کی کامیاب کوشش نے کانگرس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اس میں شامل بعض پارٹیوں کو کانگرس کے بارے میں سخت تحفظات ہیں اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں کانگرس کے بغیر کسی سیاسی اتحاد کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ اپوزیشن میں یہ واحد پارٹی ہے جس کے ملک کے ہر حصے میں ووٹرز موجود ہیں۔ اگرچہ لوک سبھا میں اس کی سیٹوں کی تعداد سکڑ کر رہ گئی ہے اور بی جے پی کی 12کے مقابلے میں بھارت کی 28ریاستوں میں سے صرف تین میں اس کی حکومتیں ہیں تاہم اب بھی ملک میں پڑنے والے کل ووٹوں میں کانگرس کا حصہ 20فیصد ہے جو کہ اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کے حق میں ڈالے جانے والے کل ووٹوں سے زیادہ ہے۔ اگرچہ اپوزیشن میں ممتا بینر جی اور اروند کیجریوال جیسے طاقتور سیاسی رہنما موجود ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے مودی ویو کا کامیابی سے مقابلہ کر رہے ہیں تاہم ابھی تک کانگرس کو ہی قومی سطح پر بی جے پی کا متبادل قرار دیا جاتا ہے۔ ابھی تک اگر اپوزیشن بی جے پی کو پارلیمانی انتخابات میں شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو اس کی ایک وجہ ایک طرف بی جے پی کے پاس آر ایس ایس کی شکل میں ایک منظم تنظیم‘ سرمایہ دار طبقے (کارپوریٹ سیکٹر) کی حمایت اور میڈیا پر کنٹرول ہے اور دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کے اندرونی تضادات‘ نظریاتی اختلافات اور مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل 28میں سے متعدد سیاسی پارٹیاں پہلے کانگرس کا حصہ تھیں مگر ذاتی‘ نظریاتی یا سیاسی اختلافات کی بنا پر کانگرس سے علیحدگی اختیار کرکے الگ پارٹیاں بنا لی گئیں۔ ان میں ممتا بینر جی کی ترینامول کانگرس (TMC) اور شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگرس پارٹی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس اتحاد میں شامل بعض پارٹیوں کے درمیان بعض مسائل پر واضح سیاسی اختلافات موجود ہیں‘ مثلاً اتحاد میں عمر عبداللہ کی جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی موجود ہیں‘ جو کہ ریاست جموں و کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں جبکہ اُدھیو ٹھاکرے کی شیو سینا آرٹیکل 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کے سخت خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اتحاد میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور بائیں بازو کی دیگر سیاسی جماعتوں کی موجودگی بھی نظریاتی تضادات کو ظاہر کرتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اتحاد میں شامل بعض جماعتیں انتخابی سیاست میں ایک دوسرے کی حریف ہیں مثلاً پنجاب میں ''عام آدمی پارٹی‘‘ پچھلے ریاستی انتخابات میں کانگرس کے ووٹ توڑ کر کامیاب ہوئی تھی۔ اسی طرح مغربی بنگال اور کیرالا میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے کانگرس اور اتحاد میں شامل دوسری سیاسی پارٹیوں کے درمیان مقابلہ ہو گا کیونکہ بی جے پی کا وہ ووٹ بینک اپنی جگہ قائم ہے اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ کانگرس یا اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں اس میں سے ووٹ حاصل کر سکیں گی۔ بعض حلقوں کی رائے میں نومبر کے ریاستی انتخابات کے نتائج نے اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے‘ مگر بھارت میں ریاستی اور پارلیمانی انتخابات کے نتائج کی تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستی انتخابات میں کامیابی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کی لازمی ضمانت نہیں۔ اگر کانگرس اور اس کی ساتھی سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں اپنی شکست سے سبق سیکھتی ہیں اور اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں تو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دے سکتی ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں