جمعہ کے روز انتخابات کے التوا کے حوالے سے سینیٹ میں منظور کی گئی قرار داد اگرچہ قانونی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی مگر سیاسی طور پر ہلچل مچانے میں ضرور کامیاب رہی‘ اس لیے کہ یہ قرار داد ایک ایسے موقع پر پیش کی گئی ہے جب انتخابی عمل ایک اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور ووٹنگ کا دن تیزی سے قریب آ رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہمات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن اور صدرِ مملکت نے باہمی مشاورت سے انتخابات کیلئے آٹھ فروری کی تاریخ مقرر کی تھی اور پوری قوم اس دن کا انتظار کر رہی ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے پلیٹ فارم سے ایک ایسی قرار داد کا آنا‘ جس میں الیکشن کمیشن سے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا گیا ہو‘ ناقابلِ فہم ہے کیونکہ اب اگر جمہوری عمل کو ڈی ریل کیا گیا تو پاکستان کا دوبارہ جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
یہ صرف ایک قرار داد نہیں‘ نہ ہی یہ محض جمہوریت پر شب خون ہے بلکہ ملکی بقا کیلئے ایک سنگین چیلنج بھی ہے کیونکہ پاکستان کی بقا جمہوریت کی مضبوطی سے منسلک ہے۔ جو عناصر ملک میں جمہوریت کے خلاف ہیں وہ دراصل اس ملک کی بقا کے خلاف ہیں کیونکہ 75 سالہ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ پاکستان جمہوریت سے روگردانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس قرارداد کی وجہ سے ملک کی سیاسی فضا ایک دفعہ پھر غیریقینی اور مایوسیوں سے مکدر ہو گئی ہے کیونکہ عدلیہ کے فیصلے پر سختی سے کاربند رہنے کے اعلان کے بعد ہر کوئی توقع لگائے بیٹھا تھا کہ آٹھ فروری کو عوام کو اپنی پسند کی نمائندہ حکومت منتخب کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ملک سے سیاسی بے یقینی ختم ہو گی اور قوم اعتماد کے ساتھ ترقی‘ امن اور استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہو گی‘ مگر اس قرار داد نے عام انتخابات کے حوالے سے اندیشوں اور بدگمانیوں کو جنم دے دیا۔ اس لیے کہ یہ قرار داد نہ صرف بے وقت اور غیرمتوقع تھی بلکہ جن حالات میں یہ پیش کی گئی‘ اس کے پیشِ نظر اس قرارداد پر گہری سازش کے گمان کو آسانی سے رَد نہیں کیا جا سکتا۔ اس قرارداد کو ایوان میں اس وقت پیش کیا گیا جب صرف درجن بھراراکین موجود تھے۔ ایوانِ بالا کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے اس قرار داد کو متعلقہ کمیٹی میں بحث کیلئے پیش کرنے کے بجائے ایوان میں رائے شماری کیلئے پیش کر دیا گیا۔ اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ ایوان کے چیئرمین اس قرار داد کو جلدی سے منظور کروانے کیلئے بے چین ہیں۔ ان کی اس بے چینی کا اظہار قرارداد کی منظوری کے بعد اس پر ایک نوٹیفکیشن کے اجرا اور الیکشن کمیشن کو بھجوانے میں تیزی میں بھی صاف جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔
اب پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اپنے اس فیصلے‘ جس میں آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کو پتھر کی لکیر قرار دیا گیا تھا‘ کے خلاف سازش کو ناکام بنا دے۔ اس مقصد کیلئے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر دی گئی ہے جس میں نہ صرف آٹھ فروری کی تاریخ کے اعادہ کی درخواست کی گئی ہے بلکہ سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے والوں کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کے تحت کارروائی کی استدعا بھی کی گئی ہے۔ دوسری طرف سینیٹ میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے ایک نئی قرارداد پیش کی ہے جس میں جمعہ کو منظور کی جانے والی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے بغیر کسی تاخیر کے قرارداد کی مذمت کی ہے اور اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ایوان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے اس قرار داد کی مخالفت کرکے اچھی مثال قائم کی ہے۔ ایوان میں حاضر اراکین میں سے وہ واحد رکنِ سینیٹ تھے جنہوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی حالانکہ اس وقت ایوان میں پی پی پی اور پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ سینیٹ بھی موجود تھے‘ تاہم ان دونوں پارٹیوں کے ترجمانوں اور اعلیٰ عہدے داروں نے قرارداد کو پاکستان میں جمہوریت کے خلاف ایک سازش قرار دیا‘ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن جو خود اس سے قبل ملتی جلتی وجوہات کی بنا پر انتخابات کے التوا کے حق میں متعدد بار بیانات دے چکے ہیں‘ نے جمعہ کے روز منظور ہونے والی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرارداد میں انتخابات کے التوا کے حق میں جو دلائل دیے گئے ہیں‘ ان سے اس مسئلے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے موقف کی عکاسی ہوتی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے کھل کر اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ اس پر کسی کو کوئی حیرانی نہیں۔ باقی تمام سیاسی پارٹیوں نے حیران کن اتحاد سے‘ وقت ضائع کیے بغیر اتنے مؤثر انداز میں اس قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کو نہ صرف اس قرارداد کی مخالفت کرنا پڑی بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات مخدوش سہی مگر ان میں بھی انتخابات ہو سکتے ہیں۔ اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہ اس قرارداد میں نگران حکومت یا کسی ادارے کا کوئی ہاتھ ہے‘ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرا دی کہ حکومت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے پوری طرح باصلاحیت ہے۔
نگران وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ بیان اور یقین دہانی اس لحاظ سے اہم ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت الیکشن کمیشن کیلئے حکومت کی طرف سے تعاون یا عدم تعاون کو خاص اہمیت حاصل ہو گی۔ نگران وزیر اطلاعات کے اس بیان کے بعد الیکشن کمیشن کیلئے قرار داد میں کیے گئے مطالبے کے مطابق انتخابات کو ملتوی کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کو سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے حق میں قرارداد منظور کروانے والوں کو پہلے قدم پر ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور وہ اس قرارداد کے ذریعے جو مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے‘ اس کا اب کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس قرارداد نے اگرچہ ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی تھی مگر اس میں ہماری سیاسی پارٹیوں کیلئے ایک اہم اور مفید سبق بھی پوشیدہ ہے۔ اس قرارداد کے خلاف سیاسی پارٹیوں کے ردِ عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر وہ آپس کی محاذ آرائی کو ایک طرف رکھ کر متحدہ مؤقف اختیار کریں تو بڑے سے بڑے اور پیچیدہ چیلنج کا بھی کامیابی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ ان کو خطرہ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اُن عناصر سے ہے جو پاکستان میں عوام کی حکمرانی نہیں چاہتے۔ ملک کے موجودہ پارٹی سسٹم میں بہت سی کمزوریاں ملک میں جمہوری سیاسی نظام کے بار بار منقطع ہونے کی وجہ سے ہیں اور اس میں دیگر عناصر کے علاوہ سیاسی پارٹیوں میں انفرادی‘ ذاتی اور گروہی مفادات کی بنیاد پر محاذ آرائی بھی شامل ہے۔
2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے اس قسم کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنے کا عہد کیا تھا مگر وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکیں اور طاقتور حلقوں کے حربوں کا شکار ہو گئیں۔ سینیٹ کی موجودہ قرارداد کو متفقہ طور پر مسترد کرکے سیاسی جماعتوں نے جمہوریت‘ قانون اور آئین کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی پر اپنے غیرمتزلزل یقین کا اظہار کیا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو سیاسی پارٹیاں اسی قسم کی یکجہتی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کریں گی۔