اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں وحشیانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز صہیونی فوج نے جبالیا میں پناہ گزینوں کی ایک عمارت کو نشانہ بنایا جبکہ رفح میں بھی بمباری کی۔ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں فلسطینی شہدا کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی اور صحت کی صورتحال تباہ ہونے سے غزہ ڈیتھ زون بن گیا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں نے غزہ میں پانی اور خوراک سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات کی شدید ترین قلت کی تصدیق کی ہے۔ گزشتہ دنوں غزہ میں کام کرنے والی اٹھارہ امدادی تنظیموں کے سربراہان نے مشترکہ بیان میں خبردار کیا کہ غزہ میں زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات کی شدید قلت ہے اور رفح میں مزید کشیدگی امدادی عمل کو تباہ کر دے گی۔ چند روز قبل اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین کے ترجمان نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں کوئی جگہ اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں۔ اُس وقت رفح شہر‘ جہاں غزہ کی سرحد مصر سے ملتی ہے اور جہاں سے بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً پانی‘ خوراک اور ادویات وغیرہ فلسطینیوں کے لیے فراہم کی جا رہی تھیں‘ اسرائیلی فوج اور فضائیہ کے حملوں سے محفوظ تھا لیکن قریب ایک ہفتہ قبل اسرائیل نے امریکی اور برطانوی انتباہ کے باوجود رفح شہر کو اپنی بربریت کا نشانہ بنانے کا آغاز کر دیا۔ رفح پر حملے سے قبل متعدد یورپی ممالک نے بھی اسرائیل کو خبردار کیا تھا۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اجلاس سے قبل لکسمبرگ کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم زاویئر بیٹل نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے رفح پر حملہ کیا تو اسے اپنی آخری حمایت سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ پر 7 اکتوبر سے اسرائیلی حملے جاری ہیں‘ اس قدر طویل عرصہ گزر جانے کی وجہ سے ان حملوں کو جائز حقِ دفاع کہنا دشوار ہو گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 70 فیصد سے زائد عورتیں‘ بچے اور عام شہری تھے‘ نتیجتاً اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حملے طے شدہ ہدف پر کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب برطانوی حکومت اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات پر پابندیاں عائد کرنے کے معاملے پر غور کر رہی ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اگر جنوبی غزہ کے شہر رفح پر زمینی حملہ کیا گیا یا امدادی ٹرکوں کی غزہ پٹی میں داخلے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو یہ اقدام بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آئے گا۔ اگرچہ برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا بڑا ملک نہیں ہے۔ 2022ء میں اسرائیل کو برطانوی دفاعی برآمدات کی کُل لاگت محض 53 ملین ڈالر تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق برطانیہ اسرائیل کو جنگی طیاروں کے پرزے‘ میزائل اور ٹینک کے ساتھ ساتھ چھوٹے ہتھیار اور گولا بارود فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل 2014ء میں بھی اسرائیل‘ غزہ تنازع کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا تھا کہ اگر غزہ پہ اسرائیلی حملے جاری رہے تو برطانیہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی کچھ برآمدات معطل کر دے گا لیکن اس جنگ کے طول پکڑنے کے باوجود برطانیہ نے اپنی برآمدات کو محدود نہیں کیا تھا۔ اس بار اپنے ممکنہ اقدام پر برطانیہ نے اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ بھی تبادلۂ خیال کیا ہے جو اسرائیلی وزیراعظم اور ان کی حکومت پر بڑھتے عالمی بالخصوص مغربی دباؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ رفح پر حملے کے بعد برطانیہ نے امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رفح پر زمینی حملے کو آگے نہ بڑھائے‘ جہاں 14 لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد پناہ گزین ہیں۔ ادھر اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کو رمضان کے آغاز تک‘ تب تک آگے بڑھایا جائے گا جب تک غزہ کی پٹی میں قید 100 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو رہا نہیں کرا لیا جاتا۔ واضح رہے کہ اس وقت بھی غزہ پٹی میں 130 اسرائیلی شہری قید ہیں جن میں سے 30 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ ساڑھے چاہ ماہ کی جنگ کے بعد بھی اسرائیل اپنے شہریوں کو رہا نہیں کرا سکا جو اس کے اہداف کی ناکامی کا بیّن ثبوت ہے۔
غزہ جنگ کو شروع ہوئے ساڑھے چار ماہ سے زائد ہو چلے ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ شہر میں اسرائیلی حملوں میں 75 فیصد سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تباہ ہونے والی ان عمارتوں میں گھروں کے علاوہ ہسپتال اور سکول بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں 84 فیصد ہسپتال اور ڈسپنسریاں اسرائیلی حملوں سے متاثر ہوئی ہیں۔ غزہ‘ جس کی آبادی 20 لاکھ سے زائد ہے‘ اس وقت تباہی و بربادی اور بے بسی کی ایسی تصویر پیش کر رہا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سب سے زیادہ اس جنگ میں بچے متاثر ہوئے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں 15 ہزار بچے اپنے والدین سے بچھڑ کر بے سہارا ہو چکے ہیں اور ان کی خوراک‘ صحت اور رہائش کا کوئی انتظام نہیں کیونکہ اسرائیل آسمان سے گھروں کے علاوہ خیمہ بستیوں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں حتیٰ کہ اقوام متحدہ سمیت امدادی اداروں کی طرف سے تعمیر کردہ پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں بھی سب سے زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں ہی کی ہے۔ اس وقت صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی کو تہس نہس کرنے کا تہیہ کر کے بیٹھا ہوا ہے۔
رفح حملے کے بعدامریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے حق میں الجزائر کی پیش کی گئی قرارداد کو ایک بار پھر ویٹو کردیا۔ سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔ دوسری جانب ایران کے وزیرخارجہ حسین امیرعبداللہیان نے سیکرٹری جنرل او آئی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کے اقدامات اور او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ قبل ازیں غزہ میں جاری تباہی کو روکنے کے لیے قطر نے ایک مصالحتی فارمولا تیار کیا تھا جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ میں محصور فلسطینیوں کی امداد کی بہم رسائی ممکن بنانے اور عارضی طور پر لڑائی بند کرنے کے علاوہ طویل جنگ بندی اور حماس اور اسرائیلیوں کے درمیان مسئلۂ فلسطین کے ایک مستقل اور دیرپا حل کے لیے مذاکرات کے آغاز کی بھی گنجائش رکھی گئی تھی۔ گزشتہ دنوں جب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے مشرقِ وسطیٰ کے اپنے پانچویں دورے کے دوران قطر کا دورہ کیا تو قطر کے اس فارمولے پر انہوں نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ حماس نے بھی ان تجاویز کی حمایت کی تھی اور ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے گا اور کسی اور بہانے سے غزہ پر حملے شروع کر دے گا۔ اس کے باوجود قطر کی تجاویز پر قاہرہ میں مذاکرات کا آغاز کیا گیا مگر اسرائیل نے رفح شہر کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا کر امن عمل کو سبوتاژ کر دیا ہے۔گزشتہ روز ایک اسرائیلی ٹی وی چینل نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی جنگی کابینہ نے حماس کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے اپنا وفد فرانس کے دارالحکومت پیرس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز‘ قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالر حمن الثانی اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل بھی ان مذاکرات کا حصہ بنیں گے۔ ادھر حماس نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل پچھلے ہفتے (قاہرہ میں) منظور ہو چکی تجاویز سے پیچھے ہٹ رہا ہے‘ وہ معاہدے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔