وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ایک بیان کے مطابق پاکستان بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات شروع کرنے پر غور کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ بیان اس تناظر میں اہم ہے کہ ایک تو ‘بقول اُن کے ‘ پاکستان کا تاجر اور کاروباری طبقہ اس کا مطالبہ کر رہا ہے اور دوسرا‘ گزشتہ ساڑھے چار سال سے زائدعرصے سے پاکستان اور بھارت کے نہ صرف تجارتی بلکہ مواصلاتی تعلقات میں مکمل ڈیڈ لاک کے بعد اس اقدام کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ عام طور پر جب پاک بھارت تعلقات کی گزشتہ 77 سال کی تاریخ کا ذکر کیا جاتا ہے تو تصادم‘ کشیدگی اختلافات اور جنگ نمایاں خدوخال کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں‘ حالانکہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد دونوں ملکوں میں امن‘ تعاون اور تجارت پر مبنی تعلقات کے کئی اہم ادوار ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو آزاد ملکوں کی صورت میں برصغیر کی تقسیم سیاسی تھی‘ معاشی نہیں۔ تقسیم سے پہلے ان خطوں پر مشتمل آزاد اور خودمختار ملکوں کے مابین ہزاروں سال سے مخصوص راستوں سے تجارت اور آمد و رفت رہی۔ 1947ء میں ان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے باوجود تجارتی روابط کو بند کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بات کا کم ذکر کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر پر اختلافات اور 1948ء میں پہلی جنگ کے باوجود کئی برسوں تک ایک کسٹمز یونین کے فریم ورک کے تحت درآمدی اور برآمدی تجارت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے‘ مثلاً پاکستان نے کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے بھارت کو خلیج فارس سے پٹرول اور مٹی کا تیل بغیر کسی ڈیوٹی کے درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی تھی اور بھارت نے کلکتہ کی بندرگاہ سے مشرقی بنگال میں پیدا ہونے والے پٹ سن کو بغیر کسی برآمدی ڈیوٹی کے باہر بھیجنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اس سے دونوں ملکوں کی معیشتوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا مگر 1951ء میں جب پاکستان نے بھارت کی طرف سے کرنسی (بھارتی) کی قدر میں کمی کے جواب میں اپنی (پاکستانی) کرنسی کی قدر میں کمی کرنے سے انکار کیا تو بھارت نے یکطرفہ طور پر اس کسٹمز یونین فریم ورک کو ختم کر دیا‘ اس کے باوجود واہگہ کے راستے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت جاری رہی جو 1965ء کی جنگ کے وقت ختم ہوئی۔ 1972ء میں شملہ معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت کو بحال کرنے کا سمجھوتا ہوا مگر اس کے باوجود عام اور کھلی تجارت پر پابندی رہی جس کی ایک وجہ کشمیر کے تنازع کے حل کی طرف کسی پیش قدمی کا نہ ہونا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے صنعتکاروں اور تاجروںکی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کی اس خدشے کی بنا پر مخالفت تھی کہ اس سے بھارت کو پاکستان کی معیشت پر چھا جانے کا موقع میسر آئے گا۔
1985ء میں پاکستان اور بھارت سمیت پانچ جنوبی ایشیائی ممالک پر مشتمل علاقائی تعاون برائے ترقی کی تنظیم سارک کا قیام عمل میں آیا۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے معاہدے پر پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے دستخط کرنے اور 1995ء میں بھارت کی طرف سے پاکستان کو موسٹ فیورڈ نیشن (MFN) کا درجہ دینے کے بعد پاکستان نے نہ صرف بھارت کو مساوی رعایت دینے سے احتراز کیا بلکہ 2006ء میں سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا (سیفٹا) کا رکن ہوتے ہوئے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ بھارت کی طرف سے کشمیر سمیت دیگر دو طرفہ تنازعات مثلاً سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں دریائے سندھ کے معاون دریائوں جہلم اور چناب پر بندوں کی تعمیر‘ سیاچن پر غیر قانونی قبضہ اور سرکریک پر اس کا بلا جواز دعویٰ‘ پر سنجیدہ بات چیت کی عدم آمادگی تھی۔ 2004ء میں اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی صدر پاکستان پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ اس بات چیت کے نتیجے میں اگرچہ دو طرفہ تنازعات کے حل کی طرف نمایاں پیشرفت نہ ہو سکی مگر دونوں ملکوں میں کشیدگی میں کمی ہوئی اور اس ماحول نے تجارت اور ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں بہت مدد دی۔ ایک اندازے کے مطابق امن مذاکرات کے چار ادوار یعنی 2008ء تک پاک بھارت دو طرفہ تجارت میں پانچ گنا اضافہ ہوا اور 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بھارت کو موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے پر اپنی آمادگی کا اظہار کر چکی تھی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں اس پالیسی کو جاری رکھا۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومت تو بھارتی پنجاب کے ساتھ زراعت اور توانائی کے شعبوں میں بھی تعاون کی خواہشمند تھی۔ اب پاکستان کے تاجر اور کاروباری طبقے کی سوچ میں بھی تبدیلی آ چکی تھی اور وہ بھارت کے ساتھ تجارت خصوصاً فارماسوٹیکل اور ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد کے حق میں تھے کیونکہ یہ اشیا بھارت میں سستے داموں دستیاب تھیں‘ مگر کہا جاتا ہے کہ حکومت کی اس پالیسی کو مقتدرہ کی حمایت حاصل نہ تھی اس لیے حکومت اس پالیسی کے تحت عملی اقدامات نہ کر سکی۔
بھارت میں 2014ء کے انتخابات کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کے قیام نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک دفعہ پھر کشیدگی کو ہوا دی کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی اپنے حامیوں کو خوش کرنے کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے خلاف بھی سخت پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہتے تھے۔ بھارتی حکومت کے اس رویے کی وجہ سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولا باری میں اضافہ ہوا جس سے دونوں طرف مالی و جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔ اس سے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل رک گیا اور باہمی تجارت کو بڑھانے کی کوششیں بھی متاثر ہوئیں مگر تجارت اور دیگر اہم شعبوں میں پاک بھارت تعلقات کو سب سے بڑا دھچکا اگست 2019ء میں لگا جب نریندر مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت حاصل داخلی خود مختاری کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی آرٹیکل 35 اے کو بھی معطل کر کے وادیٔ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف تجارت بلکہ ہر قسم کے روابط منقطع ہیں مگر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی یہ کیفیت زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کے زیر اثر دنیا کے تمام ممالک اپنی معیشت کی مضبوطی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی پرانی پالیسی پر نظر ثانی کے حق میں مختلف حلقوں کی طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ مقتدرہ‘ جو گرتی ہوئی معیشت کو قومی مفاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ تسلیم کر چکی ہے‘ کے رویے میں بھی تبدیلی آئی اور بھارت کے ساتھ محدود سطح پر تجارت کی حمایت کر دی۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت نے 2021ء میں بھارت سے محدود مدت کیلئے چینی اور کپاس کی درآمد کا فیصلہ کیا مگر اس پر عمل نہ ہو سکا۔ موجودہ حکومتی قیادت اپنے گزشتہ ادوار میں بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت بڑھانے کے عزم کا اعلان کر چکی ہے۔ اس لیے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے اس اعلان کے بعد امید ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اس سے نہ صرف پاکستانی معیشت کو تقویت حاصل ہو گی بلکہ بیرونی سرحدوں پر کشیدگی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے اس اقدام کو بین الاقوامی برادری خصوصاً ورلڈ بینک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف بھی پسند کریں گے کیونکہ ان کی طرف سے ایک عرصے سے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔