"DRA" (space) message & send to 7575

اسرائیلی جارحیت اور ایران کا جواب

غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری ہے اور اس کے حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی تعداد 35ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کیلئے قاہرہ میں مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسے میں مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔ یہ ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم ہے۔ اس کی ابتدا اسرائیل کی طرف سے ہوئی تھی جب اس کی فضائیہ نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا تھا۔ ایران اور عالمی برادری کے بیشتر ممالک‘ جن میں روس‘ چین اور عرب ممالک بھی شامل ہیں‘ نے اسرائیل کے اس حملے کی مذمت کی تھی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ ایران نے اس حوالے سے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی کھلی جارحیت قرار دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ایران اس کا مناسب جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ 13اور 14اپریل کی درمیانی شب کو ایران نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 51کے تحت سیلف ڈیفنس کا حق استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے مختلف علاقوں میں صہیونی تنصیبات کو ڈرونز اور میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے بیان کے مطابق ایران نے ان حملوں میں170 ڈرونز اور120 سے زیادہ میزائل استعمال کیے اور ان کے دعوے کے مطابق ان ڈرونز اور میزائلوں کی بیشتر تعداد (تقریباً 99 فیصد) کو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر آنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کر دیا گیا۔ ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو اسرائیل میں اپنے نشانوں پر پوری طرح پہنچنے سے روکنے میں امریکہ‘ برطانیہ اور خطے میں اسرائیل کے اتحادی ممالک کا سب سے زیادہ اور فیصلہ کن ہاتھ ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن‘ جنہوں نے ایران کے حملے کے خدشے کے پیشِ نظر بحراوقیانوس اور بحیرۂ روم سے لڑاکا طیاروں اور ایئر ڈیفنس سسٹم سے لیس دو بحری بیڑوں کو اسرائیل کی حمایت میں مشرقِ وسطیٰ کیلئے روانہ کر دیا تھا‘نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کو ایرانی ڈرونز اور میزائلوں سے محفوظ رکھنے میں امریکہ کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ صدر بائیڈن کے اس بیان کو اگر امریکہ میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو صدر بائیڈن کی طرف سے اسرائیل کی مکمل حمایت اور عملی امداد کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے کیونکہ ان کے حریف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی حکومت کو کمزور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ صدر ہوتے تو حالات قدرے مختلف ہوتے۔ بہرحال ماضی میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان لڑی جانے والی تمام جنگوں کی طرح اس دفعہ بھی امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دے کر غزہ میں جنگ کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ خطے کے دیگر حصوں کو بھی جنگ میں دھکیلنے کی راہ ہموار کی ہے۔
آج سے چھ ماہ قبل جب سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں حماس کی کارروائی کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے غزہ پر پوری قوت کے ساتھ حملے کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھی ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے سے شروع ہونے والی جنگ غزہ تک محدود نہیں رہے گی اور جلد یا بدیر اس کا دائرہ فلسطین سے باہر دوسرے علاقوں تک پھیل جائے گا۔ جنوبی لبنان سے ملنے والی اسرائیلی سرحد اور بحیرۂ احمر کے جنوبی حصے پہلے ہی اس جنگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں غزہ میں اب تک جو جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے اور جس ڈھٹائی سے اسرائیلی حکومت بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو نظرانداز کرکے ان حملوں کو جاری رکھنے پر تلی ہوئی ہے‘ اس کی دنیا بھر اور خود مغربی دنیا بشمول امریکہ شدید ترین مذمت کی گئی ہے اور اب تک مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے والی قوم کو اس کے اتحادی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ اس عالمی احتجاج کے باوجود اسرائیل کی حمایت اور اسے مہلک ترین اسلحہ سپلائی کرنے پر امریکی عوام میں صدر جو بائیڈن کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ اسرائیل بھی یہ حکمت عملی اختیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ غزہ میں فلسطینیوں کے بے دریغ قتلِ عام کی وجہ سے وہ عالمی برادری کی ہمدردیاں تیزی سے کھو رہا ہے۔ لہٰذا دونوں ملکوں نے مل کر ایران کو مشتعل کرکے ایک نیا محاذ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ کرکے امریکہ اور اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور تصادم کا ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کی ہے اور اس کا مقصد غزہ میں اسرائیلی تباہی سے دنیا خصوصاً امریکی اور اسرائیلی عوام کی نظریں ہٹانا ہے کیونکہ صدر بائیڈن کی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی اپنے عوام کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ نیتن یاہو سے فوری طور پر حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جس عجلت کے ساتھ صدر جو بائیڈن نے امریکی بحریہ کے دو بیڑوں کو مشرقِ وسطیٰ کی طرف روانہ کیا‘ حالانکہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں پہلے ہی امریکہ کی بحری‘ فضائی اور زمینی فوجیں بھاری تعداد میں اسلحہ سے لیس موجود ہیں‘ اور جس طرح صدر بائیڈن نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملوں کو روکنے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے اس کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں کہ دنیا خصوصاً امریکی عوام کی نظروں میں ایران کو جارح اور اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کیا جا سکے لیکن جیسا کہ روس کے سابق وزیراعظم دمتری میڈیولیف نے ایران کے خلاف اسرائیلی اشتعال انگیزی اور اس کے نتیجے میں ایرانی کارروائی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ فلسطین ہے اور یہ جب تک حل نہیں ہوگا‘ خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
دنیا کے بیشتر ملکوں نے جہاں فریقین کو صبر و تحمل اور ضبط کا مشورہ دیا ہے وہاں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی غزہ میں اسرائیل کی متواتر جارحیت اور قتلِ عام کا منطقی نتیجہ ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران کی طرف سے ڈرون اور بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے بعد خطے میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی لیکن مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ امریکہ نے اس خطے میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے امریکہ کے علاوہ یورپ اور پوری دنیا کے اہم مفادات وابستہ ہیں کیونکہ اس خطے سے برآمد ہونے والا تیل دنیا کی تیل کی 40فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ خود ایران اور عرب ممالک بھی جنگ کے حق میں نہیں۔ ہمسایہ ممالک‘ جن میں ترکیہ اور پاکستان بھی شامل ہیں‘ مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کے اثرات سے بچنا چاہتے ہیں۔ چین اس خطے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور اس خطے کے ممالک کے ساتھ اس کی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک بڑی جنگ کی صورت میں ان مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی ملک‘ جس کے بلاواسطہ یا بالواسطہ اس خطے سے اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں‘ جنگ کے حق میں نہیں۔ اس لیے اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں کیونکہ ایسا امریکہ کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں؛ تاہم اگر غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری رہی تو اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں مثلاً ترکیہ اور ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے مگر امریکہ کسی بڑے تصادم کو قابو سے باہر ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں