حال ہی میں سعودی عرب کے ایک وفد نے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کی قیادت میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ سعودی عرب کا یہ اعلیٰ وفد اپریل کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان مکہ مکرمہ میں ہوئی ایک ملاقات کے بعد پاکستان آیا۔ اُس ملاقات میں‘ جو سات اپریل کو ہوئی تھی‘ دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے گزشتہ برس اعلان کردہ سعودی عرب کی پاکستان میں اگلے پانچ برسوں کے دوران میں 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آنے والے وفد میں سعودی عرب کے وزیر برائے پانی اور زراعت عبدالرحمن عبدالمحسن الفادلے‘ وزیر صنعت اور معدنی وسائل بندر ابراہیم الخوریف‘ ڈپٹی منسٹر برائے سرمایہ کاری محمد مازائید القواجری اور دیگر حکام شامل تھے۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پاکستانی حکام نے سعودی وفد کے سامنے مختلف شعبوں خصوصاً معدنیات‘ آئی ٹی‘ زراعت اور واٹر مینجمنٹ میں ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات پیش کیں اور سعودی حکام ان میں سرمایہ کاری کا جائزہ لیں گے۔
مکہ مکرمہ میں پاکستانی اور سعودی وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد صرف ایک ہفتے کے اندرسعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں ماہرین کے وفد کی پاکستان آمد سے واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تعلقات‘ خاص طور پر معاشی شعبے میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے‘ مگر یہ آغاز جس علاقائی اور عالمی تناظر میں ہو رہا ہے‘ اس کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اسے ملحوظِ خاطر رکھے بغیر یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سب سے پہلے تو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک مثلاً قطر اور کویت نے بھارت کے ساتھ بھی وسیع تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعلقات قائم کر رکھے ہیں اس لیے سعودی عرب کے لیے علاقائی امن اور استحکام ایک اہم ترجیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفد کے قائد وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے دورۂ پاکستان کے دوران صدر آصف علی زرداری‘ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ کے ساتھ میڈیا ٹاک میں جہاں پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری میں اضافے کی خواہش کا اظہار کیا‘ وہاں انہوں نے جنوبی ایشیا اور خلیج فارس کے خطے میں خوشحالی اور سلامتی کو فروغ دینے پر بھی زور دیا۔ سعودی عرب کی طرف سے علاقائی امن اور سلامتی پر زور کا مقصد صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں اپنی سرمایہ کاری کا تحفظ ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس میں پاکستان ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے‘ جس کا واضح مطلب پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور دونوں ملکوں کے تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک میں سرمایہ کاری ریاض کو اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان امن ڈپلومیسی کے ذریعے فاصلے کم کرنے کا موقع بھی فراہم کر سکتی ہے۔
سعودی عرب اس وقت چین‘ امریکہ اور جاپان کے بعد بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اس سے درآمد کیے جانے والا خام تیل بھارت کی ایندھن کی 17 فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کے ساتھ بھارت کے تجارتی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت خطے سے باہر مشرقِ وسطیٰ کے دیگر حصوں اور ترکیہ کے ساتھ اقتصادی راہداری (اکنامک کوریڈور) کی تعمیر کے جو منصوبے بنا رہا ہے‘ اس کے نتیجے میں بھارت اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک (جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے) کے مابین تجارت کا حجم 112 بلین ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تجارتی راہداریوں کی تعمیر اور ان کے نتیجے میں دونوں خطوں کے درمیان عوامی رابطوں اور تجارت میں اضافہ کے اہم سیاسی مضمرات ہیں جنہیں پاکستان سمیت دونوں خطوں کے تمام ممالک کو پیشِ نظر رکھنا اور ان کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی میں ضروری تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
سعودی عرب ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ دونوں ملکوں کے انتہائی قریبی اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد مذہبی‘ ثقافتی اور تاریخی روابط پر رکھی گئی اور گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ان دوطرفہ تعلقات میں سعودی عرب نے انتہائی نازک مواقع پر پاکستان کی فیاضانہ اور بے غرض امداد کی؛ تاہم تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں موجودہ تعلقات کی بنیاد دونوں ملکوں کے باہمی قومی مفادات پر رکھی گئی ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی معیشت تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی پر منحصر ہے مگر سعودی عرب اس انحصار کو ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ کثیر پیداوار اور برآمد سے اس کے تیل کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اپنی معیشت کو متبادل ذرائع فراہم کرنے کیلئے سعودی عرب ایک عرصے سے معدنیات اور زراعت کے شعبوں کو ترقی دے رہا ہے‘ علاوہ ازیں اب وہ یورپ اور امریکہ کے بجائے ایشیائی اور افریقی ممالک کی منڈیوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان اور بھارت میں سعودی سرمایہ کاری میں اضافہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں مثلاً بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات قائم ہیں اور ان ممالک سے ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں لوگ سعودی عرب میں محنت مزدوری اور مختلف شعبوں میں کام بھی کر رہے اور اربوں ڈالر کی ترسیلات اپنے ملکوں کو بھیج رہے ہیں۔
اس طرح سعودی عرب جنوبی ایشیا کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے مگر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی اہمیت صرف معاشی اور تجارتی تعلقات تک محدود نہیں‘ سعودی عرب جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس پر مشتمل جغرافیائی خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ اس خطے میں امن اور سلامتی سعودی عرب کی نہ صرف معیشت بلکہ سلامتی کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان اس خطے سے ملحقہ بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر کے جنوبی حصے میں واقع خلیج عدن سے متصل ایک بڑی بحری قوت ہے۔ اگرچہ ان پانیوں میں امریکہ کے دو بحری بیڑے مستقل قیام پذیر ہیں جبکہ قطر‘ بحرین اور بحر ہند کے وسط میں خلیج فارس کے قریب مجمع الذخائر ڈیاگوگارشیا میں بھی امریکہ نے بڑی تعداد میں بحری جہاز اور جنگی طیارے کھڑے کر رکھے ہیں مگر مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ چند برسوں کے دوران امریکہ کے کیے گئے اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ خطے کا کوئی ملک اس پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ اس لیے سعودی عرب نے ایک سال قبل ایران کے ساتھ مفاہمت کے علاوہ چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور معاشی تعلقات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے گہرے دفاعی تعلقات بھی اسی مقصد کے لیے ہیں اور وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کی قیادت میں پاکستان آنے والے وفد نے حکام سے دفاعی حکام پر بھی ملاقات کی۔ صدر زرداری نے بھی سعودی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان طویل المیعاد سٹریٹیجک پارٹنرشپ پر زور دیا۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا علاقائی مطمح نظر ایک جیسا ہو‘ تاکہ دو طرفہ تعلقات کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی جا سکے۔