بھارت میں ان دنوں ''لوک سبھا‘‘ یعنی مرکزی مجلسِ قانون ساز کی543 نشستوں کیلئے عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ ووٹرز کی تعداد کے پیشِ نظر تقریباً ڈیڑھ ماہ میں (19 اپریل تا 4 جون) سات مرحلوں میں ہونے والے ان انتخابات کے نتائج اور ممکنہ مضمرات پر بھارت میں ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں میں بھی بحث ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی بھارتی انتخابات میں دلچسپی لی جا رہی ہے اور ان کے متوقع نتائج اور مضمرات کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ نہ صرف بھارت میں وقوع پذیر ہونے والی ہر بڑی سیاسی تبدیلی پاکستان پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ پاکستان اور بھارت کے سیاسی نظاموں میں یکسانیت ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے نظاموں کے باقی خدوخال مثلاً وفاقی پارلیمانی نظام‘ عدلیہ اور کثیر التعداد پارٹی سسٹم کے علاوہ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی عام بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مرکزی مجلسِ قانون ساز (لوک سبھا) اور ریاستی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب براہِ راست ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں میں ووٹ ڈالنے کی عمر کی حد 18 سال ہے۔ دونوں ملکوں میں انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کو بھارتی آئین کے آرٹیکل324 کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ بھارت میں یہ کہاوت عام ہے کہ بھارتی سیاستدان آسمان پر خدا اور دھرتی پر چیف الیکشن کمشنر سے ڈرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی آئینی ذمہ داری یعنی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن آئین کے تحت حاصل اختیارات کو سختی سے استعمال کرتا ہے۔ یہ اختیارات تین قسم کے ہیں: انتظامی‘ ایڈوائزری اور عدالتی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ایک آئینی ادارہ ہے جسے دستورِ پاکستان اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں مگر یہاں الیکشن کمیشن کا کردار اکثر و بیشتر متنازع رہا ہے۔ بھارت میں بھی الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر1952ء سے اب تک بھارت میں پارلیمانی یا ریاستی انتخابات میں الیکشن کمیشن کا کردار عمومی طور پر تسلی بخش‘ مؤثر اور بڑے تنازعات سے پاک رہا ہے۔ چونکہ بھارت میں ان دنوں ہونے والے انتخابات میں بھی بھارتی الیکشن کمیشن کلیدی کردار ادا کر رہا ہے‘ اس لیے اس بھارتی ادارے کو آج کے کالم کا موضوع بنایا گیا ہے تاکہ ہم معلوم کر سکیں کہ اس ضمن میں ہم کیا سیکھ سکتے ہیں۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ بھارتی الیکشن کمیشن‘ جسے 1950ء میں قائم کیا گیا تھا‘ 1989ء تک صرف ایک رکن یعنی چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل تھا۔ اکتوبر 1989ء میں بھارت کے صدر نے اس میں دو ایڈیشنل الیکشن کمشنرز کا اضافہ کیا ۔ بھارت کے الیکشن کمیشن کے مؤثر اور غیرمتنازع ہونے کی وجوہات جاننے کیلئے اگر اس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں دو محرکات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک یہ کہ بھارت میں 1952ء سے تواتر کے ساتھ پارلیمانی انتخابات ہوتے رہے ہیں اور کسی غیرسیاسی قوت کی مداخلت سے جمہوری عمل معطل نہیں ہوا۔ جمہوری نظام کے اس تسلسل کی وجہ سے بھارت میں جہاں دیگر آئینی ادارے مستحکم ہوئے‘ وہاں الیکشن کمیشن کو بھی مضبوط اور مؤثر ہونے کا موقع ملا۔ پولنگ کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی بھارت کی سول انتظامیہ کا کنٹرول بھارتی الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور حکومت‘ خواہ وہ یونین (مرکزی) ہو یا ریاستی (صوبائی)‘ کے کسی عہدے دار یا کسی سیاسی جماعت کو الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی جرأت نہیں ہوتی۔ دوسرا‘ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دیگر دو ممبران (الیکشن کمشنرز) کی مدتِ ملازمت کو آئینی تحفظ فراہم کرکے الیکشن کمیشن کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ بھارت کے چیف الیکشن کمشنر کو چھ سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ تعیناتی صدر کے حکم سے عمل میں آتی ہے جس کے لیے وزیراعظم‘ لیڈر آف دی اپوزیشن اور کابینہ کے ایک رکن‘ جسے وزیراعظم نامزد کرتا ہے‘ پر مشتمل ایک کمیٹی صدر کو ایڈوائس بھیجتی ہے لیکن چیف الیکشن کمشنر یا باقی دو الیکشن کمشنرز کو عہدے سے ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں اکثریت کے ساتھ قراردادوں کی منظوری ضروری ہے۔
بھارت کے الیکشن کمیشن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور باقی دو الیکشن کمشنرز کو برابر کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ جمہوری عمل کے اس تسلسل اور مضبوط آئینی تحفظ نے بھارتی الیکشن کمیشن کی چھ دہائیوں پہ محیط تاریخ میں چند ایسے چیف الیکشن کمشنرز پیدا کیے ہیں جو اپنی دیانتداری‘ محنت اور دلیری کی وجہ سے ادارے کی تاریخ میں اَنمٹ نشانات چھوڑ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ٹی این سیشان ہیں جو بھارت کے دسویں چیف الیکشن کمشنر تھے۔ سیشان کا تعلق جنوبی بھارت کی ریاست کیرالا سے تھا جو کانگرس کے ایک مشہور اور سینئر رہنما ڈاکٹر ششی تھرور کے مطابق ملک کی سب سے زیادہ سیکولر ریاست ہے۔ وہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ آئی سی ایس) کے رکن تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں انتخابی عمل کو صاف شفاف اور دھاندلیوں سے پاک کرنے کے لیے 100 سے زیادہ اصلاحات متعارف کرائیں اور انہیں سختی سے نافذ کیا۔ ان اصلاحات میں انتخابی مہم پر آنے والے اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد کا تعین‘ ووٹوں کی خریداری کا خاتمہ اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے ووٹرز میں مفت شراب کی تقسیم پر پابندی‘ انتخابی مہم کے دوران حکومتی وسائل اور مشینری کے استعمال پر پابندی اور مذہب و ذات کے نام پر ووٹ مانگنے کی ممانعت شامل ہیں۔ شنید ہے کہ اپنے دور کے ایک انتخاب میں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشان نے1488 امیدواروں کو اخراجاتی گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع نہ کرانے پر نااہل قرار دے دیا تھا اور انتخابی مہم کے دوران مقرر کردہ حد سے زیادہ خرچ کرنے پر انہوں نے14 ہزار امیدواروں کو نااہل کیا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے40 ہزار اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی تھی۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگلیاں نہیں اٹھتی رہیں یا اسے کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ تقریباً ہر انتخاب میں بھارتی الیکشن کمیشن کے مختلف اقدامات کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اور اس پر جانبداری اور مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کی طرفداری کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔ مثلاً پچھلے (2019ء) عام انتخابات میں مغربی بنگال میں برسر اقتدار اپوزیشن پارٹی ترنمول کانگرس کی جانب سے بھارتی الیکشن کمیشن پر بی جے پی کی طرف سے مذہب اور ذات کی آڑ میں ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خراب ہونے کی شکایات بھی منظرِعام پر آتی رہی ہیں۔ پاکستان کے برعکس بھارتی الیکشن کمیشن کو ملک کی سیاسی پارٹیوں کے مالی معاملات اور پارٹیوں کے اندرونی انتخابات پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی متعدد پارٹیوں اور سیاستدانوں کی طرف سے الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزیوں کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں مگر بھارت میں الیکشن کمیشن نے ان شکایات پر فوری کارروائی کر کے اپنے انتخابات کو پہلے سے زیادہ شفاف بنا کر ووٹرز کو آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔