وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورۂ چین کو ہر لحاظ سے کامیاب اور ملکی معیشت کی ترقی‘ آزادی اور خود مختاری کے تحفظ اور سٹرٹیجک تعاون کے لیے ایک اچھی اور بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔ اس پانچ روزہ دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ وہ چین کی صنعتی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے مرکز شینزن کا دورہ کرنے کے علاوہ چین کے مختلف ثقافتی مراکز پر بھی گئے۔ ان کے دورے کا ایک نمایاں پہلو بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی چیانگ کے ساتھ ملاقات تھی۔ دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں دونوں طرف سے دو طرفہ تعلقات خصوصاً تجارت‘ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔ اس دورے کے دوران پاکستان اور چین نے23 معاہدوں پر دستخط کیے جن کا مقصد پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں خصوصاً زراعت‘ صنعت‘ آئی ٹی اور سرمایہ کاری میں باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں زرعی شعبہ کو خاص ترجیح دی گئی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ صنعت کے شعبے میں پاکستانی مصنوعات ویلیو ایڈیشن کی بنیاد پر تیار نہیں ہو رہیں‘ اس لیے وہ چین کی مارکیٹ میں جگہ نہیں بنا پا رہیں‘ حالانکہ پاکستان اور چین کی دو طرفہ تجارت میں توازن کے لیے چین کو پاکستانی برآمدات میں اضافہ بہت ضروری ہے اور اس حوالے سے چین نے پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ کرکے پاکستان کی مدد کرنے کی کوشش بھی کی ہے مگر پاکستانی صنعتکار اس سے کماحقہٗ فائدہ نہیں اٹھا سکے‘ اس لیے اب چین نے پاکستان کے زرعی شعبے‘ جس کا جی ڈی پی کی پیداوار میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے‘ پر توجہ دینا شروع کی ہے تاکہ چین کو پاکستان کی زرعی اشیا کی برآمد سے نہ صرف پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہو سکے بلکہ ایک عرصے سے پاک چین دو طرفہ تجارت میں چلے آنے والے عدم توازن کو کم کیا جا سکے۔
1960ء کی دہائی کے وسط میں جب پاک چین دوستی اور تعاون کی بنیاد رکھی گئی تو دونوں ملکوں کا فوکس دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون پر تھا۔ یہ پالیسی قابلِ فہم تھی کیونکہ سرد جنگ کے اُس انتہائی گرم دور میں پاکستان اور چین دونوں کو سکیورٹی کے میدان میں سنگین چیلنجز درپیش تھے۔ اسی زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان1965 ء کی جنگ ہوئی جس کے بعد امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ہتھیاروں کی سپلائی روک دی گئی۔ دوسری طرف چین کو نہ صرف امریکہ کی طرف سے سخت معاندانہ پالیسی کا سامنا تھا بلکہ سابقہ سوویت یونین کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے چین کو بین الاقوامی سطح پر آئسولیشن کا سامنا بھی تھا۔ ان حالات میں چین کے لیے اولین ترجیح اس گھیرے کو توڑنا تھا جو امریکہ نے اس کے گرد ڈال رکھا تھا۔ اس وقت پاکستان نے چین کے ساتھ ہوائی معاہدہ کرکے اُسے مغربی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ‘ افریقہ بلکہ بحر ہند کے پار ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا موقع فراہم کیا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کے تمام ممالک کی خارجہ پالیسی میں سٹرٹیجک کے بجائے معاشی ترجیحات‘ یعنی تجارت اور معاشی تعلقات کا فروغ‘ شامل ہو گئیں۔ جو ممالک اس عمل سے متاثر ہوئے ان میں چین نمایاں ہے۔ بالخصوص بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں چین نے بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے اپنی معیشت کے جس طرح دروازے کھولے اس سے نہ صرف اس کے باقی دنیا کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ ملا بلکہ اپنے ارد گرد کے ہمسایہ ممالک اور ان سے پار اہم تجارتی اور معاشی خطوں مثلاً ایشیا پیسفک‘ آسیان ممالک‘ جنوبی ایشیا‘ روس‘ وسطی ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ‘ افریقہ بلکہ ان سے آگے یورپ میں چین کے اثر و رسوخ اور موجودگی میں اضافہ ہوا بلکہ موجودہ بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام کے استحکام میں اس کا سٹیک پیدا ہوا۔ اب چین انقلاب‘ مسلح جدوجہد اور سامراج کے خلاف جنگ کے نعروں کے بجائے باہمی مفاد‘ برابری اور احترام کی بنیاد پر معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعاون اور امن پر زور دینے لگا۔ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات اس کی نئی خارجہ پالیسی کی مثال ہیں۔ سرحدی تنازع اور آئے دن جھڑپوں کے باوجود چین اور بھارت کی دو طرفہ سالانہ تجارت100 ارب ڈالر کو چھو رہی ہے۔ چین کے ورلڈ ویو میں اس تبدیلی کا اثر پاک چین تعلقات پر بھی پڑا اور سٹرٹیجک شعبے کے ساتھ ساتھ معاشی‘ تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون پر بھی زور دیا جانے لگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ چین کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے ساتھ دفاعی شعبوں میں تعاون کی اہمیت کم ہو گئی ہے یا اس کی سطح نیچے آ گئی ہے بلکہ جیسا کہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چین پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے دفاع کے لیے پہلے کی طرح پُرعزم ہے بلکہ دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان تعاون کی نئی راہیں تلاش کرکے اسے مزید مضبوط بنانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کے دوران دونوں طرف سے کی گئی تقاریر اور مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاشی شعبے میں تعاون کے فروغ پر مزید زور کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ چھ دہائیوں سے چلے آنے والے قریبی سٹرٹیجک تعلقات اور دوستی کو ایک مضبوط اور پائیدار بنیاد فراہم کرنا ہے‘ اس کے لیے2014ء سے پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں اہم منصوبے مکمل کیے گئے ہیں اور مستقبل میں تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں کے علاوہ صنعت‘ زراعت‘ ثقافت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون کے لیے حالیہ دورے کے دوران 23 معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں لیکن چین کی طرف سے امدادی کوششوں اور پاکستان کی شدید خواہش کے باوجود دونوں ملکوں میں تجارت‘ سرمایہ کاری اور دیگر شعبوں میں تعاون میں نمایاں اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان طے شدہ معاہدات اور ایم او یوز پر عملدرآمد کی رفتار بہت سست ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان اور چین نے تجارت‘ معیشت‘ ثقافت‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے 23 نئے معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں۔ اس سے قبل بھی دونوں ملک درجنوں معاہدات اور ایم او یوز پر دستخط کر چکے ہیں مگر ان میں سے ایک چوتھائی پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا‘ اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے درمیان معاشی تعاون کے فروغ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سکیورٹی اور پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والی چینی شہریوں پر دہشت گردانہ حملے ہیں۔ ان حملوں کے حوالے سے چین نے متعدد بار تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے اور پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا ہے لیکن 26 مارچ کو بشام میں ایک دہشت گردانہ حملے میں پانچ چینی انجینئرز کی ہلاکت نے چینیوں کی تشویش میں اس حد تک اضافہ کر دیا ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ دورے کے دوران چینی حکام کی طرف سے تقریباً ہر میٹنگ میں سکیورٹی کا مسئلہ اٹھایا گیا جس پر پاکستانی حکام نے چینی شہریوں کو پاکستان میں فول پروف سکیورٹی کا یقین دلایا ہے۔ حسبِ معمول چین نے پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو خارجہ تعلقات میں اولین ترجیح قرار دیا ہے اور پاکستان نے بھی چین کے ساتھ سٹرٹیجک شراکت داری کو اپنی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم ستون قرار دیا ہے مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں میں دوستانہ اور قریبی تعلقات اور تعاون کا انحصار پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال کی بہتری پر ہے۔