برطانوی قوم دنیا کی عجیب قوم ہے۔ اس قوم نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو شکست دینے میں سر ونسٹن چرچل کے تاریخی کردار پر اُن کو ایک عظیم ہیرو قرار دیا مگر جنگ کے بعد پہلے انتخابات میں ہی انہیں مسترد کر دیا۔ ایک لحاظ سے یہ ہندوستان میں بسنے والی قومیتوں کیلئے اچھا ثابت ہوا کیونکہ امریکی صدر روز ویلٹ کے دباؤ کے باوجود چرچل نے ہندوستان کو آزاد کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اگر 1947ء میں چرچل برطانیہ کا وزیراعظم ہوتا تو شاید اگست1947ء میں بھی پاکستان اور بھارت آزاد نہ ہو پاتے۔ برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی کے ہاتھوں کنزرویٹو پارٹی کی شکست یورپ کی سیاست کے ایک اہم موڑ پر واقع ہوئی ہے۔ اس وقت تمام یورپ میں قوم پرست اور غیر ملکی تارکینِ وطن (خصوصاً مسلمانوں) کے مخالف عناصر غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔ اٹلی‘ ہنگری اور نیدرلینڈز میں ان کی حامی پارٹیاں برسرِ اقتدار ہیں۔ فرانس میں سوشلسٹ‘ کمیونسٹ‘ بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے عناصر اور بنیادی انسانی حقوق کے حامیوں پر مشتمل ''نیو پاپولر فرنٹ‘‘ نے بڑی مشکل سے میرین لا پین (Marine la pan) کی انتہائی دائیں بازو اور فرانس سمیت پورے یورپ کو غیر ملکی تارکینِ وطن سے پاک کرنے کے نظریات کی حامل پارٹی نیشنل ریلی کو برسرِ اقتدار آنے سے روکا ہے۔ اگرچہ جون میں ہونے والے یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات میں اس نے فرانس کی تمام پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ کر یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا‘ تاہم چار جولائی کو برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج‘ جن میں لیبر پارٹی نے 14 سال بعد کنزرویٹو پارٹی کو بھاری مارجن سے شکست دی ہے‘ یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاسی رجحانات کے لیے حوصلہ شکن ثابت ہو سکتے ہیں۔
تاریخی طور پر‘ خواہ یہ انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین بونا پارٹ کا دور ہو یا بیسویں صدی کی پہلی پانچ دہائیوں میں عسکری لحاظ سے طاقتور جرمنی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سابقہ سوویت یونین کے یورپ پر چھا جانے کا خطرہ‘ برطانیہ نے ہمیشہ توازنِ طاقت کے تحت یورپ میں غالب سیاسی نظام اور سوچ کے خلاف پالیسی اپنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حلقوں میں کنزرویٹو پارٹی‘ جسے دائیں بازو اوردائیں طرف کے نظریات کی پارٹی سمجھا جاتا ہے‘ پر بائیں بازو اور بائیں طرف کے نظریات کی حامل لیبر پارٹی کی فتح کو بیلنس آف پاور کی اسی تاریخی پالیسی کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ برطانیہ اور یورپی حلقوں میں لیبر پارٹی کی اس تاریخی فتح پر اس کی حریف کنزرویٹو پارٹی کی 14 سالہ مس گورننس‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ سیاسی عدم استحکام اور ریفام پارٹی کی شکل میں انتہائی دائیں بازو کے رجحانات میں اضافے کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے‘ تاہم برطانیہ سے باہر تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے جیو سٹرٹیجک ماحول اور غزہ پر گزشتہ نو ماہ سے جاری اسرائیل کے وحشیانہ حملوں نے بھی اس حکومتی تبدیلی میں کردار ادا کیا ہے۔ برطانوی عوام کی بھاری اکثریت نے غزہ پر اسرائیلی حملوں‘ جنہیں عالمی عدالت فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دے چکی ہے‘ کی مذمت کی ہے۔ لندن اور دوسرے شہروں میں ہر ہفتے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے احتجاجی جلوس اس بات کے گواہ ہیں۔ ان مظاہروں میں شرکا نے کنزرویٹو پارٹی کی حکومت سے اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ اکثر لوگ خصوصاً ایسے حلقوں کے ووٹرز‘ جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے‘ کی طرف سے لیبر پارٹی سے بھی یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے حق میں بیان دیا جائے لیکن نہ صرف یہ کہ لیبر پارٹی نے حکومت کی اسرائیل کی حمایت اور امداد جاری رکھنے کی پالیسی کی حمایت کی بلکہ عوام کو مایوس بھی کیا۔ اس کے لیڈر کیئر سٹارمر نے محض غزہ میں جنگ بند کرنے کی حق میں بیان دینے ہی سے انکار نہیں کیا بلکہ غزہ کی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی آبادی کو پانی‘ گیس اور بجلی کی سپلائی بند کرنے کی پالیسی کی حمایت بھی کی۔ اس پر لیبر پارٹی کے روایتی مسلم ووٹرز نے سخت ناراضی کا اظہار کیا جس کا نتیجہ عام انتخابات سے پہلے منعقد ہونے والے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے امیدواروں کی مسلم اکثریتی حلقوں میں شکست کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بی بی سی کی طرف سے 58 ایسی لوکل کونسلوں میں‘ جہاں 20 فیصد سے زیادہ مسلم آباد تھے‘ کیے گئے سروے کے مطابق لیبر پارٹی کے ووٹ شیئر میں سابقہ لوکل گورنمنٹ انتخابات 2021ء کے مقابلے میں 21 فیصد تک کمی ہوئی۔ یہ اعداد و شمار جب سامنے آئے تو لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ پارلیمنٹ اور کونسلرز کی طرف سے قیادت پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ غزہ پر اپنے مؤقف کو تبدیل کرے۔ لیبر پارٹی کے تقریباً سو سے زیادہ رکنِ پارلیمنٹ اور 100 کے قریب کونسلرز غزہ پر اپنی پارٹی قیادت کی پالیسی سے اختلاف کرنیوالوں میں شامل تھے لیکن سٹارمر کی تاخیر کی وجہ سے عام انتخابات میں متعدد ایسے حلقے لیبر پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئے جہاں مسلم ووٹرز کی حمایت سے اسکے امیدوار ایک عرصے سے کامیاب ہوتے آرہے تھے۔ اس نقصان کی تلافی کیلئے سٹارمر نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے کے فوراً بعد غزہ میں جنگ بندی کے حق میں بیان دیا مگر تب تک مسلم ووٹرز کا لیبر پارٹی سے اعتماد اٹھ چکا تھا۔
حالیہ انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی 121 نشستوں کے مقابلے میں لیبر پارٹی نے 412 سیٹیں حاصل کر کے بھاری اکثریت حاصل کی ہے مگر ووٹرز کی کل تعداد میں دونوں پارٹیوں کے شیئر میں زیادہ فرق نہیں پڑا۔ یعنی پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کی نشستیں ایوان کی کل نشستوں‘ 650 کا 63 فیصد ہیں مگر ووٹرز کی تعداد میں کنزرویٹو پارٹی کے 24 فیصد کے مقابلے میں لیبر پارٹی کا صرف 34 فیصد حصہ ہے‘ یعنی دونوں پارٹیوں کے ووٹ کی شرح میں صرف 10فیصد کا فرق ہے۔ یہ پاکستان کے الیکشن سسٹم کی طرح برطانیہ کے سنگل انتخابی حلقہ میں متعدد امیدواروں کے باہمی مقابلے میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دینے والے انتخابی نظام کا شاخسانہ ہے۔ خواہ اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کل ووٹوں کی تعداد کے50 فیصد سے بھی کم ہو۔ اس نظام کے تحت ووٹ اور پارلیمنٹ میں حاصل کردہ سیٹوں کی تعداد میں مطابقت لازمی نہیں۔ لیبر پارٹی کے رہنما کا دعویٰ تھا کہ انتخابات میں ان کی پارٹی 480 نشستیں حاصل کرے گی لیکن 412 نشستوں کے ساتھ بھی وہ مضبوط پوزیشن میں ہیں‘ اس لیے کیئر سٹارمر کی حکومت اعتماد کے ساتھ ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو ان کی پیشرو کنزرویٹو پارٹی کے دور میں نہیں ہو سکے۔ ان میں افراطِ زر‘ قرضوں اور ٹیکسوں میں اضافہ اور سب سے اہم اندرونی اتحاد کی بحالی شامل ہیں۔ نئے وزیراعظم نے انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ برطانیہ کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ اسی لیے ان کی حکومت اس تبدیلی کا کام فوری طور پر شروع کر رہی ہے مگر اس میں وقت لگے گا۔
برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی کی ایک اہم کامیابی سکاٹ لینڈ میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے مقابلے میں ہے۔ اس طرح نہ صرف سکاٹ لینڈ بلکہ ویلز اور ناردرن آئرلینڈ میں بھی لیبر پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہو گئی ہے۔ حلف اٹھانے کے بعد نومنتخب وزیراعظم کیئر سٹارمر کے بیانات اور تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوری طور پر ان کی توجہ خارجہ پالیسی کے بجائے اندرونی محاذ پر مرکوز ہو گی کیونکہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کے مؤقف میں بہت کم فرق ہے۔ دونوں نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں۔ اندرونی محاذ پر نئی حکومت کو دیگر مسائل کے علاوہ ریفام پارٹی کی شکل میں انتہا پسند دائیں بازو کی ابھرتی ہوئی طاقت سے بھی نمٹنا پڑے گا۔