28اپریل کو مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے مطابق دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ فی الحال روک دیا گیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبوں کے درمیان اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں کھودی جائے گی۔ اس سلسلے میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے پانی کی دستیابی پر جو سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا اور اس کی بنا پر ایکنک نے نہروں کی تعمیر پر جو فیصلہ کیا تھا‘ انہیں واپس لے لیا گیا ہے۔ اس اقدام کے بعد سندھ میں نئی نہروں کے معاملے پر جاری احتجاجی تحریک اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ اس احتجاجی تحریک اور دھرنوں کا بنیادی مطالبہ ہی نہروں کی تعمیر کے منصوبے کی منسوخی تھا۔ سی سی آئی کے اعلامیہ کے بعد بیشتر احتجاجی دھرنے اٹھا دیے گئے تاہم وکلا نے سی سی آئی کے اعلامیہ کو مبہم قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور اپنے دھرنے جاری رکھے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نہروں کے منصوبے کو مستقل طور پر ختم کیا جائے۔ اس کے ساتھ انہوں نے دو مزید مطالبات بھی کر دیے اور کہا کہ یہ مطالبات تسلیم ہونے تک احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔ ان میں سے ایک کارپوریٹ فارمنگ منصوبے کے تحت سندھ کی 52713 ایکڑ اراضی گرین پاکستان انیشی ایٹو کو الاٹ کرنے کے نوٹیفکیشن کی منسوخی اور دوسرا بورڈ آف انویسٹمنٹ آرڈیننس ترمیمی بل 2023ء کی منسوخی ہے۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے چیئرمین سید زین شاہ نے مطالبہ کیا کہ سندھ کو یقین دہانی کرائی جائے کہ دریائے سندھ سے آئندہ کوئی نئی نہر نہیں نکالی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سی سی آئی کے اعلامیے جس میں Ifs اور Buts کی بھرمار ہے‘ کو قبول نہیں کریں گے۔ عوامی تحریک کے مرکزی صدر نور احمد کٹیار نے بھی اعلان کیا کہ سی سی آئی کے فیصلے کے بعد بھی احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔
جب دریائے سندھ سے نہریں نکال کر چولستان کو سیراب کرنے کے منصوبے کا اعلان ہوا تھا تو سندھ میں اس منصوبے کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گئی ۔ ابتدا میں اس کے شرکا کا تعلق سندھ کی قوم پرست جماعتوں اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس سے تھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اور نہ وفاقی حکومت نے اسے کوئی اہمیت دی‘ لیکن آہستہ آہستہ اس تحریک کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی احتجاجی ریلیوں میں شریک ہونے لگے۔ جمعیت العلمائے اسلام (ف)‘ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی نہروں کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کی حمایت کردی لیکن جب جماعتی وفاداریوں سے بالاتر ہو کر وکلا اور سول سوسائٹی کے ارکان نے اس تحریک کی حمایت کرتے ہوئے احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں میں شرکت شروع کی تو نہ صرف وفاقی بلکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اس معاملے پر سی سی آئی کا اجلاس بلانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ لیکن اس وقت تک یہ تحریک نہ صرف سندھ بھر میں پھیل چکی تھی بلکہ اس کے حق میں دیگر صوبوں سے بھی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ 1982-83ء کی تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے بعد کوئی پہلی ایسی تحریک تھی جس نے وفاقی حکومت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقار جونیئر کی طرف سے احتجاجی تحریک میں شرکت اور پیپلز پارٹی پر مصلحت پسندی کے الزام نے اس احتجاج کو ایک نیا رُخ دیا جس کے تحت سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ کا احتجاجیوں کے ساتھ ہونے کے بجائے اندرونِ خانہ وفاقی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کا تاثر تقویت پکڑنے لگا۔ اگرچہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور وکلا برادری نے سی سی آئی کے فیصلے کے باوجود احتجاجی دھرنے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے مگر نہروں کے منصوبے کے ختم ہونے اور ارسا سے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کی واپسی کے بعد بڑی قومی شاہراہوں پر دھرنے آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گے کیونکہ ان کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے پیشِ نظر عوام کیلئے ان دھرنوں کا مزید بوجھ اٹھانا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ تاجر اور صنعتکار برادری خاص طور پر پریشان ہے اور متعدد مرتبہ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرا چکی ہے۔ اب صوبائی حکومت کو بھی شاہراہوں کو احتجاجی کیمپوں اور دھرنوں سے خالی کروانے کیلئے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو استعمال کرنے کا جواز مل گیا ہے۔ احتجاجیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد لینا غیرمتوقع نہیں کیونکہ صوبائی حکومت کیلئے بھی اپنی اتھارٹی اور رِٹ کو ثابت کرنا ضروری ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے نہروں کے منصوبے کو معطل کرنے اور اس اعلان کے بعد کہ سی سی آئی میں تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی نئی نہر تعمیر نہیں کی جائے گی احتجاجی تحریک میں پہلے جیسی شدت نہیں رہے گی۔ مگر اپوزیشن کی طرف سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ قائم رکھنے کیلئے کسی نہ کسی سطح پر جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سی سی آئی کے اجلاس کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس کے تحت اس منصوبے کو معطل کیا گیا ہے‘ اس سے دستبرداری کا فیصلہ نہیں کیا گیا بلکہ ارسا اور منصوبہ بندی ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئندہ ایسے فیصلوں (پانی کی دستیابی پر سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور اس کی بنا پر نہروں کی تعمیر کا آغاز کرنے) سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو مطمئن کیا جائے اور صوبوں کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ گرین پاکستان کارپوریٹ فارمنگ انیشی ایٹیو کیلئے جو پانی درکار ہے وہ صرف دریائے سندھ سے نہریں نکال کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس احتجاجی تحریک‘ جس نے وفاقی حکومت کو نہروں کے منصوبے کو معطل کرنے پر مجبور کیا ‘ نے اب کارپوریٹ فارمنگ اور اس کیلئے سندھ میں الاٹ کی جانے والی زمین کو واگزار کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
وکلا‘ سول سوسائٹی کے اراکین اور سیاسی ورکروں کی طرف سے اس احتجاجی تحریک کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنے کے ارادے کی دوسری وجہ صوبوں خصوصاً سندھ اور وفاق کے درمیان پانی کے معاملے پردہائیوں سے چلی آنے والی بداعتمادی ہے۔ اگرچہ سی سی آئی کے اس فیصلے کو‘ کہ آئندہ کوئی نئی نہر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور اتفاقِ رائے کے بغیر تعمیر نہیں کی جائے گی‘ ایک نوٹیفکیشن کی صورت میں جاری کیا گیا ہے اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کو دفن کر دیا گیا ہے۔ ماضی کی وعدہ خلافیوں اور معاہدوں کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے صرف سندھ ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے عوام بھی وفاق پر اعتبار نہیں کرتے۔ 1950ء کی دہائی میں دریائے سندھ پر بیراج تعمیر کرتے وقت سندھ کے عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان بیراجوں کی نہروں سے سیراب ہونے والی زمینیں سندھ کے بے زمین ہاریوں میں تقسیم کی جائیں گی مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا۔ سندھ میں سندھی قوم پرستی کی بنیاد انہی وعدہ خلافیوں سے پڑی ۔ اب بھی اگر نہروں کے منصوبے کو مستقل طور پر ختم نہ کیا گیا اور سی سی آئی کے فیصلے کے تحت صوبوں اور وفاق پر مشتمل کمیٹی نے زرعی شعبے اور پانی کی منصفانہ تقسیم پر ایک طویل المیعاد ترقیاتی منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا تو ایسی مزید احتجاجی تحریکیں سر اٹھا سکتی ہیں۔