میڈیا پر لگا ہوا تماشا

حامد میر پر حملہ یقینا قابل ِ مذمت ہے۔ ریاست کی سلامتی کے لیے صحافیوں کو، حتیٰ کہ عام شہریوں کو بھی، نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس سے پہلے ایکسپریس گروپ کے رضا رومی پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ایک نئی قسم کی دہشت گردی ہے جو ملک کے مشہورصحافیوں کو نشانہ بناتی ہے۔ان دونوں حملوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان کا نشانہ بننے والے وہ میڈیا پرسنز ہیں جو اپنی گفتگو میں بہت سے معاملات میں یا توقدرے محتاط تھے یا ان کے نظریات کے بارے میں ابہام رہتا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حامد میر کی سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے ساتھ کسی حد تک محاذآرائی والی کیفیت تھی لیکن یہ ایک فرد اور ان کے کچھ حامیوں پر کی جانے والی تنقید تھی نہ کہ بطور ادارہ فوج پر۔ 
حامد میر‘نے جو بلاشبہ ایک تجربہ کار اور ماہر صحافی ہیں، ٹی وی پر سیاسی موضوعات پر مبنی پروگرام پیش کرنے کے فن کو بام ِ عروج پر پہنچا دیا۔ وہ پروگرام اس طرح پیش کرتے کہ لوگ سوچتے ہی رہ جاتے کہ میر صاحب کے اصل سیاسی نظریات کیا ہیں۔ ایک طرف وہ لبرل سوچ رکھنے والے شہریوں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے تو دوسری طرف ''لبرل فاشزم‘‘ اصطلاح کے خالق بھی وہی ہیں اور اس کی ترویج بھی انھوں نے ہی کی۔ اُنھوںنے ایک طرف بنگلہ دیش اور بلوچستان کا کیس پیش کیا تو دوسری طرف یہ حامد میر ہی تھے جنھوںنے بھارتی وزیر ِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے بارے میں نواز شریف کی آف دی ریکارڈ گفتگو کو بھی ظاہر کردیا۔ اس عمل سے پاک بھارت دوطرفہ تعلقات میں قدرے سردمہری آ گئی۔ یقینا ایسا کرتے ہوئے حامد میر نے بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا۔آف دی ریکارڈ گفتگو میں استعمال کیے گئے الفاظ ''دیہاتی عورت‘‘ کو منظر ِعام پر لے آنا یقینا پیشہ ور صحافتی اقدار کی نفی تھی۔جو تجزیہ نگار کچھ مخصوص حلقوں کو پسند نہیں ہوتے، اُنہیں ''بلیک آئوٹ ‘‘ کر دیا جاتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس اندوہناک واقعے کی وجہ سے صحافی برادری یک جہتی اوراتفاق کا مظاہرہ کرنے کی بجائے تقسیم کا شکار دکھائی دی۔ اب مختلف دھڑوں کے درمیان شروع ہوجانے والی محاذآرائی کی وجہ سے ہم اصل مسئلے، صحافیوں کو درپیش خطرے کے تدارک ‘ سے دو ر ہٹتے جارہے ہیں۔میڈیا ہونے والی یہ بحث فوجی محاذآرائی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ اس میںکچھ دھڑے وہ ہیں جو اس بات پر سخت طیش میں دکھائی دیتے ہیں کہ حامد میر پر حملے کے فوراً بعد ایک میڈیا ہائوس کی طرف سے ملک کی اہم ترین خفیہ ایجنسی پر الزام کیوں عائد کردیا گیا، جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اس عمل کی تائید کررہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دونوں کی ناروا کھینچا تانی میں اہم تفصیل فراموش کردی گئی یا پھر اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس معاملے میںتیسرے فریق کے طور پر وہ افراد سامنے آرہے ہیں جو اس بحث میں براہ ِ راست تو شامل نہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے جب اس خفیہ ایجنسی کو قصوروار گردانتے ہوئے دفاعی اداروں اور سول حکومت کے درمیان طاقت کے توازن کے الجھے ہوئے مسئلے کوحل کرلیا جائے، لیکن درحقیقت یہ عدم توازن اس وقت تک موجود رہے گا جب تک خفیہ اداروں اور میڈیا کے باہم تعلق کے رازوں سے پردہ نہیں اٹھ جاتا۔ 
بلا شبہ خفیہ ایجنسی کا اثر میڈیا میں بہت دور تک سرایت کرچکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ریاستی امور میں شفافیت اور معلومات حاصل کرنے کی آزادی کا فقدان ہے۔ بہت سے صحافی خفیہ ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ وہ فوجی ہیلی کاپٹرز میں مختلف مقامات پر لے جائے جاتے ہیں۔ ان کی رسائی ممنوع مقامات تک، جہاں کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے، ہوتی ہے۔ چونکہ میڈیا ہائوسز اپنے صحافیوں پر سرمایہ کار ی نہیںکرتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صحافیوں کو معلومات درکار ہوتی ہیں، خاص طور پر ان کو جو اس میدان میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہوں اور وہ جوشہرت کی بلندی پر پہنچ چکے ہوں، اُنہیں بھی اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے نت نئی معلومات درکار ہوتی ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک صحافی انتہا پسندوںکی کارروائیوں کی رپورٹنگ کر رہاہوتا ہے حالانکہ اس نے فیلڈ میں کبھی قدم بھی نہیںرکھا ہوتا۔ 
میڈیا مالکان نظریاتی نہیں‘ کاروباری افراد ہوتے ہیں۔ ایسے افراد خطرناک رسک لینے کے روادار نہیںہوتے ۔ اگر رسک لیتے دکھائی دیں تو بھی احتیا ط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ رسک بھی جچے تلے ہوتے ہیں۔ مجھے ایک مشہور پبلشر سے اپنی گفتگو یاد ہے کہ اس نے کہا تھا کہ وہ بطور پبلشر ایسے خطرات مول لینے کے لیے تیار ہے جو اس کے کاروباری مفاد میں ہوں‘لیکن ایسے مہیب رسک نہیں جن سے اُسے نقصان پہنچنے کا حتمال ہو ۔اس لیے ایک کتاب یا ایک مضمون شائع تو ہو سکتا ہے بشرطیکہ پبلشر کا ان سے کوئی نظریاتی تعلق ثابت نہ ہوسکے۔
ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کی ایجنسی کو براہ راست ملزم ٹھہرا دینے سے یقینا بے خوف صحافت کی عکاسی ہوتی ہے لیکن ٹھہریں، کیا یہ معاملہ جتنا دکھائی دیتا ہے، اتنا ہی ساد ہ ہے؟ہو سکتا ہے کہ یہ الزام تراشی دراصل اداروںکے اندر کسی تنائو کا ''فاصلاتی‘‘ اظہار ہو۔ اس کی وجہ سے میڈیا کے مختلف حلقوںکے درمیان رقابت کی موجود فضا میں شدت آگئی ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہتے ہیں۔ بہت سے لو گ جو آج الزامات لگاتے ہوئے اس کے چیف کوہٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا(2010ء میں) پی پی پی حکومت کی جان کو آگئے تھے کہ وہ قومی سلامتی کے اس اہم ترین قومی ادارے کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ خود حامد میر نے ایسے ہی دو پروگرام کیے تھے۔
یقینا یہ لوگ اتنے سادہ لوح نہیں ہیں کہ اندھے گڑھے میںکودنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں جبکہ آپ کو اس گڑھے کی گہرائی کا اندازہ بھی ہو۔ خطرات کا ادراک کرتے ہوئے بھی کچھ لوگ انہیں نظر انداز کرکے اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
اگر چہ ہونے والی گفتگو اور سامنے آنے والے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاقتور سیاسی معروضات تبدیل ہورہے ہیں لیکن میں پھر وہی سوال دہراتی ہوں، کہ کیا جو کچھ دکھائی دیتا ہے ، حقیقت میں ایسا ہی ہے ؟اگر اس حملے اس کے نتیجے میں کی جانے والی الزام تراشی کی وجہ سے ''تعلقات ‘‘ بحران کا شکار ہوبھی گئے تھے تو انہیں فوری طور پر سنبھالا دے لیا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس میڈیا ہائوس کے اہم افراد نے الزام کو انفرادی رائے قرار دیتے ہوئے اپنے ادارے کو اس سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ ہوسکتاہے کہ الزام لگانے والے بھی انہی ایجنسیوںکے ممنون رہتے ہوںکہ وہ انہیں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔ چونکہ ایجنسیوں اور میڈیا کے درمیان تعلقات کی جڑیں گہری ہیں، اس لیے جس میڈیا ہائوس کی طرف سے الزام لگایا گیا ، ہو سکتا ہے کہ اس نے کاروباری انداز میں جچا تلا رسک لیا ہو۔ ان واقعات کو دیکھنے سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم انہیں پہلے بھی کہیں دیکھ چکے ہیں۔ یاد آتا ہے کہ وکلا کی عظیم تحریک چلی اور سابق چیف جسٹس فوجی حکمران کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ آخر میں ایک آدمی کو گھر جانا پڑا لیکن ا س سے اس کے ادارے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ کیا عجب کہ ایک مرتبہ پھر ایسی ہی صورت ِ حال پیدا ہوجائے۔ حملے کے بعد مختلف حلقوںکی طرف سے آنے والے بیانات سے یہ تاثر تقویت پاتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام ڈرامہ ایک ایسا ''میلہ‘‘ نکلے جس کا مقصد کسی ''سادہ لوح دیہاتی ‘‘کی جوتی چرانا تھا ؟ مثال کے طور پر کچھ اہم افراد نے احتجاجاً اپنے میڈیا ہائوسز کواس لیے چھوڑ دیا کہ اُنہیں وہاں اس حملے پر احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ کیا بات ہے‘ کیا اعلیٰ ظرفی ہے!شخصی آزادیوں کے یہ چیمپئن اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب میڈیا اور آزادی ِ اظہار کے سر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے؟ یہ ہے میڈیا پر لگا ہوا تماشا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں