شاندار خوش فہمی

اگلے دن واشنگٹن ڈی سی کے ''یو ایس آئی پی‘‘(یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس)میںپاکستان میں انسداد ِ دہشت گردی اور اس حوالے سے خاص طورپر 2014ء کے بعد' پاک افغان‘ خطے میںامریکہ کو درپیش چیلنجزکے بارے میں ہونے والی بحث سننے کو ملی۔ اس سلسلے میں دو آراء پائی جاتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ اب اس خطے میں امریکی دلچسپی گھٹ جائے گی جس کا اثر پاک امریکہ تعلقات پر پڑے گا۔ دوسری یہ کہ کچھ تعلقات قائم رکھے جائیں گے تاکہ اگر بعد میںکسی مرحلے پر، جب ضرورت محسوس ہوتو موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے روابط بحال کرنے میں دقت نہ ہو۔ بحث بہت دلچسپ تھی کیونکہ شرکاء نے پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کا نقطۂ نظر اجاگر کیا۔
کہا گیا کہ راولپنڈی کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی مکمل طور پر ختم نہیںہونی چاہیے اور نہ ہی پاکستان کو کابل میں جاری کشمکش کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر اس خیال کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اب امریکہ‘ پاکستان کی بجائے‘ نسبتاً قابل ِ اعتماد شراکت داروںکے ساتھ روابط رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ عارضی تنائو کے باوجود راولپنڈی ہی عالمی طاقتوںکی نظروں میںاہم رہے گا کیونکہ ہماری سیاسی حکومتیں تقریباً غیر فعال دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں سیاست کی پختگی کا عمل جاری ہے لیکن یہ کام اتنی آہستگی سے ہورہا ہے کہ امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت دفاعی اور سیاسی اداروں کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی کی وجہ سے بھی پاک امریکہ تعلقات میں تنائو آیا۔ کیری لوگر بل کے ذریعے اس اپروچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان کے طاقتور حلقوںکی جانب سے اس پر سخت مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ دوسری طرف سیاسی حکومت اتنی کمزور تھی، یا اسے بوجوہ کمزور رکھا گیا کہ وہ اس تبدیلی کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہ ہو سکی۔ سول اداروں کو فوقیت دینے کی پالیسی شاید جی ایچ کیو کو پسند نہیں آتی۔ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کی وجہ سے پیدا ہونے والی پریشانی بھی یہی ہے۔ اس رقم کے خلاف پراپیگنڈا کی وجہ یہ نہیں کہ سعودی رقم کی وجہ سے پاکستان میں انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے ، بلکہ یہ کہ اس رقم سے سول حکومت کو تقویت ملی ہے۔ 
اب واضح ہونے والی صورت ِ حال یہ ہے کہ 2014ء کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں ماضی میں دکھائی دینے والی گرم جوشی ختم ہوجائے گی؛ تاہم واشنگٹن‘ راولپنڈی کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھے گا اور اسی دوران وہ اپنے لیے قابل ِ اعتماد شراکت داروںکو بھی تلاش کرتا رہے گا۔ درحقیقت مسٹر منٹر نے ایک مشہور کتاب ''Pakistan A Hard Country‘‘ کو ازبر کرلیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں دفاعی ادارے ہی بہتر ہیں۔ سابق سفیر چاہتے ہیں کہ اس تعلق کو اب فلاحی کاموں تک توسیع دی جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیمرون منٹر کو احساس ہے کہ پاکستان میں جاری بدعنوانی اور نااہلی کی ایک وجہ ہمارے طاقتور حلقوں کے امریکہ یا دیگر ممالک کے ساتھ لین دین کے معاملات ہیں؟ اس میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان امریکہ کے سہارے کو استعمال کرتا ہے، لیکن واشنگٹن بھی انہی کو وسائل مہیا کرتا ہے جن کے ساتھ اس کے روابط ہوں اور ایسا کرتے ہوئے وہ شفافیت کا لحاظ نہیںرکھتا۔ پاکستان میں 
یکے بعد دیگرے بہت سی حکومتیں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہیں۔تاہم ان کی طرف سے جس ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا، وہ ناقابل ِ معافی ہونے کے ساتھ ساتھ قابل ِفہم ضرور ہے۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے‘ جس کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں، نہ صرف ریاست کمزور ہوئی بلکہ حکومت کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ 
اس وقت پاکستان میں ترجیحی بنیادوں پرتوجہ طلب عامل یہی ہے۔ غیر ملکی امداد دینے والوں کو اسلام آباد کے ساتھ بات چیت میں شریک رہنا چاہیے، خاص طور پر اگر وہ ان پر انحصا رکرتے ہوئے خود کو بہتر اور توانا کرنے کا خواہشمنددکھائی دیتا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ غیر ملکی امداد دینے والے ادارے اور معاشی ماہرین کی بھاری بھرکم کھیپ کا خیال ہے کہ حکومت سے بالا ہی بالا دیگر دھڑوںسے معاملات طے کرنا زیادہ سود مند اور محفوظ راستہ ہے۔اس پالیسی کو عرفِ عام میں ''پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ ملک میں این جی اوز کا قیام ایک اہم ''صنعت ‘‘ کا درجہ اختیار کرگیا۔ اس ''کاروبار‘‘ میں حکومت سے وابستہ افراد، ان کے بچے، ان کے پوتے اور دیگر عزیز و اقارب دولت کے انبار لگارہے ہیں۔این جی اوز کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی ماہرین اور Consultantsکی بھرمار ہوچکی ہے۔ کیمرون منٹر اور ان کی ٹیم کو شاید اندازہ نہیں کہ ان حرکتوںکی وجہ سے این جی اوز نے پاکستان میں برا نام کمایا کیونکہ ان کو بااثر افراد نے کمائی کا ذریعہ بنالیا۔ اگر آپ شہروںسے باہرنکل کر دیہاتی علاقوں میں چلے جائیںتو اندازہ ہوگا کہ وہ لوگ امریکی رقم توخوشی سے قبول کرلیںگے لیکن اپنے نظریات نہیں بدلتے۔ اس کے علاوہ اس طرح تقسیم کی جانے والی رقم سے عوام کی زندگی میں ویسی تبدیلی نہیں آپاتی جیسی کاغذوں پر دکھائی جاتی ہے۔ بہت سی این جی اوز اچھا کام کررہی ہیں لیکن کئی این جی اوز ایسی بھی ہیں جن کی استعداد یا تو نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر ان کو چلانے کا بنیادی مقصد ہی رقم بٹورنا ہے۔ 
ملک کے بہت سے علاقوں، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں، سول سوسائٹی کی سکت بہت کم ہے لیکن یہ عالمی ڈونرز کا کام نہیںہے کہ ان کو توانا کریں۔ اگر ہم دھیان سے سنیں کہ جب کیمرون منٹر اور جنرل جان ایلن کہتے ہیں کہ اُنہیں پاکستان میں فلاحی کاموں کے لیے مالی امداد دینی چاہیے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اسلامی تنظیموںکی بات نہیں کررہے ہوتے، لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے افراد اسلامی تنظیموں کو بھی فلاحی ادارے سمجھتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایک دن امریکی رقم اُنہی افراد کی جیب میں نہ پہنچ جائے جنہیں وہ آج دہشت گردسمجھتا ہے۔ 
اس تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن کچھ اور دھڑوں کے ساتھ بھی روابط قائم کرنے کی طرف جائے گا، اس دوران یہ بات بھی یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی ایسی کوشش کے نتیجے میں حکومت ِ پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا گیا ، اس لیے آج بھی ایسے اقدامات خارج از امکان نہیں۔ امریکی سابق سفیر کے ذہن میں فلاحی کاموں کا تصور غیر مذہبی تنظیموں کے حوالے سے ہوگا۔اس ضمن میں کچھ نجی یونیورسٹیاں بھی ہیں جویہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ غریب اور مستحق افراد کو مفت تعلیم دے رہی ہیں، غیر ملکی ڈونرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ان میںسے بھی کچھ کے معاملات شفاف نہیں۔ یہ بھی اپنے نچلے درجے کے ملازمین کو بہت کم تنخواہ دیتی ہیں لیکن غریب عوام کی بھلائی کے نام پر چندے اکٹھے کرنے میںکوئی قباحت محسوس نہیں کرتیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میںنجی طور پر فلاحی کام کرنے والی تنظیمیں اپنے وسائل سے ایسا کیوں نہیں کرتیں؟کیا وہ سمجھتی ہیں کہ فلاحی کاموں میں ان کا کردار صرف مفت میں ملنے والے چندے کو تقسیم کرنا ہی ہے ؟یقینا اس تقسیم میں بھی اپنی جیب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لیے حکومت کو آگے بڑھ کر اس سوراخ کو بند کرنا ہوگا ۔ عطیات دینے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ فلاحی کاموں کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں، تنظیموں کو چندہ دینے کی بجائے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو پیسہ دیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی پرویز مشرف کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ڈونرز کو نجی تعلیمی اداروں ، نہ کہ پبلک سیکٹرز میں چلنے والی یونیورسٹیوں، میں سرمایہ کاری کرنے کا کہہ رہی ہے۔ ایک سیاسی، نہ کہ مالی عطیات کی بنیاد پر قائم ہونے والا تعلق حکومت کومختلف امور کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہوگا، تاہم مجھے شک ہے کہ واشنگٹن ایسا کرنے جارہا ہے۔ دراصل اس کا ارادہ پاکستان کی مدد نہیں، بلکہ اپنے لیے ایسے طویل المدت پارٹنر تلاش کرنا ہے جو اس کے مفادات کو تحفظ دے سکیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں