سوچنے کا کاروبار …(دوسر ا حصہ)

جب میںنے پہلی باراسلام آباد میں تھنک ٹینک بزنس کے بارے میں لکھا توکچھ قارئین نے میری بات سے ا تفاق نہ کیا۔ بے شک ان کے پاس اختلاف ِ رائے کاحق ہے لیکن میرے پاس دلیل‘ اس سوال کی صورت میں تھی کہ اسلام آباد میں موجود تھنک ٹینکس میں صرف ان افراد کو کیوں لیا جاتا ہے جن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط ہوتے ہیں۔ بہت سے مہربان قارئین نے نشاندہی کی کہ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اس لئے جوچیز ایک کے لیے درست ہے، اُسے دوسرے کے لیے بھی درست قرار دیا جانا چاہیے۔ 
تاہم ایسے دلائل دینے والے یہ نہیں بتاتے کہ وہ جن تھنک ٹینکس کا ذکررہے ہیں، وہ آزادانہ ریسرچ ورک کرتے ہیں اور اعلیٰ سطح پر پالیسی سازوںکو اپنے نتائج کی روشنی میں مدد فراہم کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ اثر ریسرچ کرنے والے نتائج کو توڑ مروڑکر اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، اس لئے اسٹیبلشمنٹ جو سننا چاہتی ہے، اُسے وہی سنایا جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں ریسرچ کرنے والے ادارے کسی موقف کی وکالت کرنے کے لیے نہیں بلکہ غیرجانبداری سے تحقیق اور تجربات کرنے تک محدود ہوتے ہیں۔ ان کے اخذکردہ نتائج پالیسی سازوں کو متاثرکربھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ مثال کے طور پرکئی امریکی تھنک ٹینکس کے متعدد تجزیہ کار عشروں تک دلائل دیتے رہے کہ واشنگٹن کو بھارت کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کی ضرورت ہے مگر اُس وقت بھارت امریکی پالیسی سازوں کے ترجیحی دائرے میں شامل نہیں تھا لہٰذا اس وقت ان کی تجاویز اور سفارش پر عمل نہ کیا گیا۔ 
ایسی مستقل مزاجی کے حامل اعلیٰ تربیت یافتہ، مضبو ط تعلیمی پسِ منظر اور آزاد سوچ رکھنے والے افرادکا پاکستان میں ملنا محال ہے۔ دراصل نئی قائم ہونے والی نجی یونیورسٹیوں اور پبلک سیکٹر میں چلنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریسرچ کی اہلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ایک وجہ ملک میں روایتی عمرانی علوم کا پست معیار اور سکیورٹی سٹڈیز اور معاون علوم کی طرف دی جانے والی توجہ میں کمی ہے۔ان اداروں میں اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرینِ تعلیم کے بجائے کچھ شعبوںکے ریٹائرڈ افراد ہی تدریس کے فرائض انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں، خاص طور پر سماجی سائنسز اورا س سے متعلقہ علوم کے لئے ریٹائرڈ افرادکو ہی موزوںسمجھا جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں دفاعی تجزیہ کاروں کی اس قدر بھرمار ہے کہ مجھے خودکو دفاعی تجزیہ کارکہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ زیادہ تر موجودہ ریٹائرڈ تجزیہ کار خود ریسرچ پیپر لکھنے سے قاصر ہیں ۔ دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جن کے لئے میں ''Mediademics‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہوں (یہ میڈیا اوراکیڈمکس کا متزاج ہے۔) اس طرح کے تھنک ٹینکس سے برآمد ہونے والے نتائج ان افرادکو مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پرہوتے ہیں۔ 
قطع نظر اس کے کہ جو بھی نتائج برآمد کئے جارہے ہیں، ایک بات طے ہے کہ تھنک ٹینک بزنس میں بہت پیسہ ہے کیونکہ غیر ملکی ڈونرز انہیں دل کھول کر رقوم فراہم کررہے ہیں۔ خاص طور پر جرمن باشندے ایسے تھنک ٹینکس کو فراخ دلی سے چندہ دیتے ہیں جومالی امورکے بارے میں سوچ بچار اور رائے سازی کرتے ہیں۔ برطانوی اور امریکی باشندوںکو بھی ایسے تھنک ٹینکس کو رقوم دینے کا شوق ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز سکیورٹی پالیسی اورخارجہ امور ہیں۔ ان میدانوں میں دی جانے والی توجہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مخصوص جرمن فائونڈیشن جو سماجی اور معاشی امور کے لئے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں اور این جی اوزکی معاونت کرتی رہی ہے، اب خود اسلام آباد میں پالیسی سازی کے معاملات پر توجہ دے رہی ہے۔ 
ایک دوست کا‘ جو ڈونر انڈسٹری سے بخوبی واقف ہیں‘ خیال ہے کہ ان تھنک ٹینکس اور این جی اوزکا ایجنڈا بڑی حد تک ان کو مالی وسائل فراہم کرنے والے ہی طے کرتے ہیں، اس لئے خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے امور پر بطورخاص توجہ دی جاتی ہے کیونکہ عطیات دینے والے اس میدان میںکچھ مخصوص نتائج کے خواہش مند ہوتے ہیں۔اس میںکوئی شک نہیںکہ عطیات دینے والوںکا کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور ہوتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مندرجہ بالا امور یعنی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں؟ اوراگر وہ ایسا نہیں کرسکتے توپھرعطیات دینے والوں اوراسے وصول کرنے والی تنظیموں سے باز پرس کون کرتا ہے؟
مجھے یاد ہے کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے زیراہتمام ایک جرمن فائونڈیشن نے نیوکلیئر سکیورٹی اور اس سے متعلق دیگر امور پر ایک سیمینار منعقدکرایا تھا۔اس میں نصف کے قریب شرکا وہ افراد تھے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کو جھوٹی سچی کہانیاں سنانے کا معاوضہ ملتا ہے۔ اسی طرح ایک نیا قائم شدہ تھنک ٹینک پاک بھارت ٹریک ٹو پالیسی پرکام کرنا چاہتا ہے۔اس نے نہایت صفائی سے ان افراد کو اپنے ادارے میں شامل نہیں کیا جن سے اختلا فِ رائے کا اندیشہ تھا۔ اس میں شرکا کی اکثریت حسبِ معمول ریٹائرڈ جنرلوں اور سفارت کاروں پر مشتمل ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان افرادکو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بیویوںکے عتاب سے بچنے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کا کوئی بہانہ درکار ہوتا ہے، اس لیے وہ ریاستی مفادکے محافظ بن کر اپنا وقت باہرگزار دیتے ہیں۔ ہم نے اس سے پہلے بھی بہت سے ٹریک ٹو پروگرام دیکھے ہیں لیکن ان سے کوئی نتیجہ برآمدہونے کی توقع نہیںکی جاسکتی۔ 
تھنک ٹینکس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایسے موضوعات پر بحث کی بجائے ریسرچ کا اہتمام کریں۔ ریسرچ کے نام پرکچھ افرادکے لیکچرز نہیں بلکہ حقیقی تحقیق درکارہوگی، لیکن ایسی نہیں جیسی ایک سال قبل اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک نے کی تھی۔اس تھنک ٹینک نے افغانستان کے مسئلے پرکچھ افراد کی رائے لی اور پھر اس پر ریسرچ کرتے ہوئے اسے ایک پالیسی کی صورت میں ڈھالا۔اسے ایک امریکی ڈونر سے فنڈزملے اور ایک صاحب نے رپورٹ لکھ دی۔ لکھتے وقت خیال رکھا کہ اس سے پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ،دونوں خوش ہوجائیں۔ موضوع کا احاطہ کرنے کے لیے یہ تین مثالیں ناکافی ہیں لیکن ان سے ایک حقیقت توسامنے آجاتی ہے کہ ڈونرز، پالیسی سازوں پر اثر انداز تو ہونا چاہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ انہیں ان کے موقف پر نظرثانی کرنے پر آمادہ کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اہلیت اتنی نہیں کہ وہ راسخ شدہ تعصبات پر قابو پاتے ہوئے اپنی سوچ بدل سکیں۔ 
کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ ڈونرزجانتے ہیںکہ وہ طے شدہ رویوںکو یک لخت تبدیل نہیںکرسکتے، اس لیے وہ اپنے لیے کام کرنے والوں پر سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں تاکہ مستقبل میں اس کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہاں تھنک ٹینک بزنس میں حقیقی ریسرچ ورک کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔کتابوں اورانٹر نیٹ سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس ایسے افرادکا گروہ ہو جو معاشرے کو تنقیدی سوالات اٹھانے اوران کے جواب تلاش کرنے پر ابھارے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں