پاک بھارت تعلقات کے اگلے پانچ سال

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی ایک مرتبہ پھر فعال دکھائی دی۔ جنوبی ایشیا کی ان دونوں ہمسایہ ریاستوں کے درمیان دوطرفہ قیام ِ امن کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دیگر لاتعداد اقدامات کے علاوہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو بھی بار ہا آزمایا گیا ۔ تاریخی طور پر ٹریک ٹو کا تصور سردجنگ کے زمانے ، خاص طور پر 1980ء کی دہائی ، میںسامنے آیا۔اس میں کچھ خاص شہریوں، جن کی کوئی سرکاری حیثیت نہیںہوتی، کو شامل کرکے مسائل کے حل اور قیام ِ امن کی کوئی راہ نکالنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔ اگرچہ ٹریک ٹو کا مقصد ٹریک ون کو سہارا دینا ہوتا ہے، لیکن یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس کے ارکان سوچ بچار کے معاملے میں حکومت (ٹریک ون) سے زیادہ آزاد ہیں۔ 
پاک بھارت ٹریک ٹو ڈپلومیسی پر اس صورت ِحال کا اطلاق نہیںہوتا کیونکہ یہاں ٹریک ٹو بہت حد تک ٹریک ون کے ساتھ مربوط ہے۔ زیادہ تر کیسز میںریٹائرڈ سفارت کاروں، فوجی افسروں اورچند ایک صحافیوں یا سیاست دانوں کو جمع کرکے ٹریک ٹو تشکیل دے دیا جاتا ہے۔پاک بھارت کیس میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی عام طور پر دوطرح کی ہوتی ہے: ایک وہ جس کی ٹیم میں ہم مختلف اور متبادل آرا سُن سکتے ہیں اور دوسری وہ جس میںاعلیٰ سطح کے سفارت کار اور فوجی افسران شامل ہوتے ہیں۔ دونوں کیسز میں ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ سرکاری موقف اور روایتی پیمانوں سے باہر کوئی صورت ِ حال وقوع پذیر نہ ہونے پائے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔۔۔ دونوں طرف کے وفود کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ سامنے آتا ہے کہ وہ پرامن راہ تلاش کرنے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیں گے۔ تاہم افسوس، ایسا کچھ نہیںہوتا ہے۔ اس طرح کی ملاقاتوں کا مقصد سرکاری سطح پر ہونے والے میٹنگز سے پہلے یہ جاننا ہوتا ہے کہ دوسرا فریق کن خطوط پر سوچ رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے کے ممالک اور اہم مقامات کا دورہ کرنا ،تین چار دن تک ایک دوسرے کی میزبانی سے لطف اٹھانا اور دوستوںسے ملاقاتیں وغیر ہ کرنا ہوتا ہے۔ 
حالیہ پاک بھارت ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے مقاصد بھی ایسے ہی تھے۔ حالیہ پیش رفت کے سامنے دو ایشوز تھے‘ پہلا: اس کا مقصدفعالیت دکھانا نہیں بلکہ قائم ہونے والے ایک نئے تھنک ٹینک کی تشہیر کرنا تھا۔ دوسرا: سرحد پار سے بلائے گئے مہانوں، جن میں کانگرس کے سابق رکن یاصحافی شامل تھے ، سے بی جے پی کی نئی قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں بات چیت کر کے حالات کا تنقیدی جائزہ لینا۔ اس کا مطلب حکومت سے مختلف سمت میں اقدامات کرنا نہیں لیکن نئی حکومت سے قربت رکھنے والے افراد یقینا مختلف موقف پیش کرسکتے تھے؛ چنانچہ نشست کے اختتام پر ہم نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے،باہم تنازعات کے پرامن حل اور دوطرفہ تجارت کے فروغ کے حوالے سے بہت سی باتیں سنیں لیکن شرکا کے ذہن میں اس ضمن میں کوئی ٹائم فریم نہیں تھا۔ اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان گرم جوشی کے وہ جذبات سرد پڑ چکے ہوں گے جن کا شروع میں مظاہرہ کیا گیا ۔ 
اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اب صورت ِ حال تین رخ اختیار کرے گی: پہلا مثالی رخ یہ ہے کہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہوجائیں۔ دوسرا یہ کہ زندگی کے معمولات کو اسی طرح چلنے دیا جائے اور اس مجبور ی کو سمجھ لیا جائے کہ ہم اس سے آگے بڑھنے سے قاصر ہیں؛ چنانچہ اگر کسی کو مزید فائدہ نہ ہوتو نقصان بھی نہ ہو۔ اس صورت میں تجارتی تعلقات میں کوئی بہت بڑی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملے گی، اگرچہ تجارتی روابط کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری اور مضبوطی آسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے‘ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ، میں نے جناح فیلو ڈاکٹر اشتیاق احمد کو سنا تھا۔ کانفرنس میں دفاعی اداروںکے بہت سے افسران بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت متاثر کن طریقے سے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے انہیں فیصلہ کن عامل قرار دیا۔ 
سوال یہ ہے کہ آیا ہمیں اب بھی اس کی امید رکھنی چاہیے یا پھر ہم موقع گنوا چکے ہیں؟ بہتر ہوتا اگر ہم تجارت کو تجارت سمجھ کر ہی کرتے اور اس کے کوئی اور مقاصد، جیسا کہ قیام امن کی راہ، طے نہ کرلیتے ۔ تجارت میں دونوں ممالک کا فائدہ تھا لیکن اس طرح کے سیاسی مقاصد کا پیمانہ یقینا کچھ اور ہوتا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ ہم تجارتی تعلقات بڑھانے کی باتیں تو کرتے رہیںگے لیکن عملی طور پر اس میدان میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دے گی۔ طرفین کی طرف سے دکھائے گئے متعصبانہ اور جارحانہ رویوں کی وجہ سے ایک موقع تو ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھاتے ہوئے آخرکار افغانستان تک رسائی چاہتا ہے اور ہم پوری توانائی صرف کرتے ہوئے اس امکان کو روکنے پر تلے ہوئے ہیں۔
دراصل تجارتی تعلقات میں پیش رفت کے لیے اعتماد کی فضا درکار ہے، لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جس دوران نریندر مودی دہلی میں اپنے قدم جمارہے ہیں، نوازحکومت عدم استحکام کا شکارہوتی دکھائی دیتی ہے۔ حکومت کے لیے سیاسی فضا مزید ناسازگار ہوتی جارہی ہے۔ فضا میں ہونے والی سرگوشیاں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ستمبر یا اکتوبر میں حکومت کی رخصتی ہوجائے گی۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو، لیکن جب ایسی باتیں کی جائیں گی تو کسی دوسرے ملک کی حکومت کو آپ پر اعتماد کرنے میں دشوار ی پیش آئے گی۔ اس کے علاوہ حکومت طاہرالقادری کے مسئلے میں بھی الجھی ہوئی ہے اور دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسے ہینڈل نہیں کرپارہی۔ ایک سوچ یہ ہے کہ آیا اس کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ نریندر مودی کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ کرسکے؟ 
دوسرے مسئلے کا تعلق بھارت میں داخلی طور پر جنم لینے والے بحران سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے انتہا پسند گروہوں کے رہنما ملک میں آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی وہ ہے جس کی حکومت حمایت نہیںکرتی۔ اس طرح مودی سرکار ایک تنی ہوئی رسی پرچل رہی ہے۔ اسے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ انتہا پسند گروہ اور نان اسٹیٹ ایکٹر کشیدگی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔۔۔ انہیں آگ لگانے کے لیے کسی چھوٹی سے چنگاری کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ مودی خود کو ایک سخت جان سیاست دان کی شہرت برقرار رکھنے کی کوشش میںان توقعات پر پانی پھیر بیٹھیں گے جو عوام نے ان سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی آگ کسی وقت بھی بھڑک سکتی ہے۔ 
گزشتہ دنوں ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ میں آنے والے وقت میں پاک بھارت تعلقات کو کیسے دیکھتی ہوں ۔ اس پر میں جتنا بھی سوچ سکتی تھی، سوچا۔ سوچ کر ذہن میں ایک ہی خواہش پیدا ہوئی‘ بجائے اس کے کہ ہم ارادے سے یا غیر ارادی طور پرایک دوسرے کو تباہی سے دوچار کردیں، کاش ہمارے تعلقات اسی مقام پر منجمد ہوجائیں تاکہ چند سال بعد جب ہم حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہوں تو شاید ہم ڈور کے ان سروں کو ملا سکیں جوفی الحال ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ِ امن کی کنجی گنوا بیٹھے ہیں۔ ہمارے پاس جتنے بھی مذاکرات کرنے والے راستے ہیں، ان پر وہ لوگ دکھائی دیتے ہیں جو طویل المدت سوچ سے عاری ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں