ریاست کا دفاع

غزہ میںاسرائیلی بربریت دیکھ کر ہرکسی کا خون غصے سے کھول اٹھا ہے۔ بین الاقوامی مداخلت کے ذریعے ہوسکتا ہے کہ یہ افسوس ناک واقعات رک جائیںاور صورت ِ حال معمول پر آ جائے یا ہو سکتا ہے کہ میڈیا کو کچھ دیر مزید ایسی ہی ہنگامہ خیز خبریں ملتی رہیں۔ اس دوران اسرائیلی ریاست کو پورا اعتماد ہے کہ ان معاملات پر عالمی برادری برہم تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی بھی اس کے خلاف کارروائی کی جسارت نہیں کر ے گا۔ یقینا تمام اسلامی دنیا مل کر بھی ایسا نہیں کر سکتی۔ مجھے کچھ نوجوان دکھائی دیے جو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں میں جوش کا بھی فقدان تھا اور وہ اس سانحے سے لاتعلق بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی ویسے ہی بھرتی کے احتجاجی مظاہرین ہیں جو دارالحکومت میں اکثر خانہ پری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے اسلامی دنیا کی کمزوری اور مخبوط الحواسی کا اظہا ر ہوتا تھا۔ اگرچہ بات بات پر جہاد اور سرفروشی کی باتیں کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن اسرائیلی حملوں کے خلاف ڈھنگ سے احتجاج کرنا بھی ہمارے بس میں نہیں۔ اس وقت مصر اور مشرق ِ وسطیٰ کی دیگر ریاستیں سیاسی طور پر اس معاملے میں آواز بلند کرنے کی ضرورت محسوس نہیںکرتیں۔ 
تاہم، اس صورت ِ حال کا اہم پہلو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس تشدد کا سلسلہ ختم ہوتا دکھائی نہ دے کیونکہ اس کی وجہ سے حماس کو، جو پہلے اپنی مقبولیت اور طاقت کھو رہی تھی، تقویت اور حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت کرنے سے تشدد کی آگ مزید پھیلی۔ اُن ہلاکتو ں کے ردِ عمل میں اسرائیلی فوج نے قاتلوں کا پیچھا کرنے اور ان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ تل ابیب کے پاس ان اقدامات کا جواز غالباً موجود ہے کیونکہ عام رائے یہی ہے کہ ایک ریاست اپنا تحفظ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ کئی ایک مسلمان ریاستیں بھی شورش پسند ی کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ ہم نے پاکستان میں غیر ملکی صحافیوں کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ تشدد کرنے والے اور اس کا نشانہ بننے والے افراد کے پرتشدد اقدامات میںکوئی فرق نہیں۔ آج کل اس پیرائے میں مشرقی پاکستان میںہونے والی خانہ جنگی کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
ہم دراصل اپنی ریاست کو بچانے کے لیے آپریشن کر رہے ہیں اور اگر ان دونوں آپریشنز میں کوئی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت سی پیشانیاں شکن آلود ہو جائیںگی، لیکن ایک اہم سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ تشدد کے جواب میں ایک ریاست کو کس حد تک ردِ عمل دکھانا چاہیے؟ تمام دنیا میں قوم پر مبنی ریاست کا اصول مستعمل تھا لیکن اب یہ فارمولہ کمزور ہوتا جارہا ہے کیونکہ کئی مقامات پر یہ لوگوں کے تخیلات پر پورا نہیں اترتا۔ عام طور پر عوام کے کچھ گروہوں اورریاست کے درمیان ہونے والی کشمکش بہت پر تشدد ہوجاتی ہے۔ 
اب سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ریاست اور عوام کی حدود کا تعین کیا جانا چاہیے یا نہیں؟
غزہ کے سانحے سے ایک اور اہم سبق ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ مذہبی بنیادوں پر قوم پرستی کس طرح تشدد کی حمایت کرتی ہے۔ اسرائیل جیسی ایک مذہبی ریاست مذہب کو قومیت کا متبادل تصور کرتی ہے۔ ایسی ریاست کے تحفظ کو مذہبی فریضہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی حد تک تشدد کو روا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ صرف اسرائیل تک محدود نہیں،تمام مذہبی ریاستیں اسی سوچ کی حامل ہوتی ہیں۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے‘ اس ریاست میں مذہب اور قومیت سختی سے مدغم ہوچکے ہیں۔ ایک اسرائیلی ماہر عمرانیات ، اوری رام (Uri Ram) کے مطابق '' ریاست اور عبادت گاہ میںکوئی فرق نہیں‘‘۔ اسرائیلی ریاست مذہب سے تقویت حاصل کرتی ہے اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی دھارے نے قومیت کو اپنے اندر اس طرح ضم کرلیا ہے کہ سیکولر قدریں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ 2004ء کے سروے کے مطابق، تقریباً چوالیس فیصد اسرائیلی خود کو سیکولر قرار دیتے تھے۔ 1999ء کے ایک سروے کے مطابق 43 فیصد اسرائیلی سیکولر اور پانچ فیصد مذہب کے مخالف تھے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اس ریاست میں سیکولرازم انفرادی ‘ذاتی زندگی اور پسند ناپسند تک ہی محدود ہوتا ہے، لیکن سیاسی بنیادوں پر سیکولرازم ناکام ثابت ہوا ، جیسا کہ مسٹر رام کا کہناہے۔۔۔''اسرائیل میں اجتماعی شناخت کے مسئلے کی وجہ سے سیکولرازم ہے‘‘۔ جوزے کیسونوا (Jose Casanova) نے سیکولرازم کی تعریف کرتے ہوئے اس کے تین پہلو بیان کیے ہیں:مذہبی عقائد اور اعمال کا زوال، مذہب کو ذاتی معاملہ قراردینا اور سیکولر بنیادوں پر کیا جانے والا امتیاز۔ اگر سیکولرازم کی یہی تعریف ہے تو پھر اسرائیل اس کے صرف پہلے درجے تک ہی محدود ہے۔وہاں سیکولرازم طرز ِ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن سیاسی زندگی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ صہیونی تحریک غیر مذہبی تھی کیونکہ اس کا مقصد قومیت کو تشکیل دینا تھا۔ اس میں لادینی افراد بھی شامل تھے۔ بعد میں وہ لبرل قوم پرست بن گئے۔ مشرقی یورپ سے آنے والے تارکین ِ وطن نے Rabbinic Judaism کو نئی قوم پرستی کے راستے میں رکاوٹ پایا اور شروع میں اُنہوںنے اکثر مواقع پر اس کی اتھارٹی کو چیلنج بھی کیا، لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ مختلف گروہوں اور قوم پرستی کو ملاکر ریاست کو مضبوط بنانے کی کوشش میں اسرائیل کے پہلے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گریون(David Ben-Gurion)نے محدود پیمانے پر یہودی مذہبی ثقافت کو استعمال کرتے ہوئے ریاستی نظریہ تشکیل دیا۔ مثال کے طور پر ریاست Sabbath کے تقدس کی ضمانت دیتے ہوئے اُس دن سرکاری چھٹی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تارکین ِ وطن کے مختلف گروہوں کو سماجی اور ثقافتی دھارے میں ہم آہنگ کرنے اور ان کے درمیان تفریق کی لکیر مٹانے کے لیے مذہبی کلچر کو عام کیا گیا۔ 
اسرائیلی ریاست اور معاشرے کے ارتقا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے احساس ہوتاہے کہ یہودی اسرائیلی شناخت کس طرح بتدریج ''غیر عرب ‘‘ ہوتی گئی۔ ریاست نے ایک ملین غیر یہودی تارکین وطن، جن میں تین لاکھ کے قریب روس سے بھی آئے تھے، کو باہم مربوط کرتے ہوئے مضبوط قوم تشکیل دی کیونکہ عربوںکے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک طاقتور قوم کی ضرورت تھی۔ عرب اسرائیل جنگوں کا حوالہ دے کر مظلومیت کا تصور بھی ابھارا گیا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سیاسی قوتوں کے رحم و کرم پر ہونے کا احساس کرتے ہوئے اسرائیل نے جدید ہتھیار بھی حاصل کیے اور اپنی تاریخی اور مذہبی سرزمین کے تحفظ کو جواز بنا کر وحشیانہ تشدد بھی کیا۔اب صورت ِ حال یہ ہے کہ عالمی برادری اس علاقائی مسئلے کو حل کرانے کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اسرائیل نے اس کونظریات اور عقائد کا رنگ دے رکھا ہے۔ تاہم تل ابیب کو اس حقیقت کی فہم بھی ہونی چاہیے کہ سیاسی جنگ کو نظریات کی جنگ میں ڈھالنے سے خطے میں امن و استحکام نہیں آئے گا اور نہ ہی اسے امن نصیب ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں