جس دوران قوم 68واں یوم ِ آزادی منارہی ہے، ایک بات شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے کہ اس کے مختلف حلقوں میں روایتی جوش اورقومی وقارکا احساس ناپید ہے۔ اس پژمردگی کی وجہ صرف سڑکوں پر کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں، پٹرول کی عارضی قلت اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے تصادم کی وجہ سے پیدا ہونے والا غیر یقینی پن ہی نہیں بلکہ عوام میں ابھرنے والا وہ اذیت ناک تاثر ہے کہ وہ آخرکس بات پر جشن منائیں۔ یہ بات اور بھی اذیت ناک ہوجاتی ہے جب جشن منانے والے اعتماداور یقین کی دولت سے محروم ہوں۔شاید اس کی ایک وجہ قوم میں آنے والی وہ تبدیلی کا عمل ہے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت کنفیوژن اور سراسیمگی کا شکار ہے ۔ یہ تبدیلی ان کی زندگی کی جہت کو بدل سکتی ہے۔
مجھے اپنے بچپن کی یاد آتی ہے جب یوم ِ آزادی اور دیگر قومی دن منانا اتنا تکلیف دہ نہیںہوتا تھا۔ اُس وقت کم از کم کوئی دبائو نہیں ہوتا تھا ۔ 1970 ء کی دہائی تک لوگوں کی حب الوطنی کا اندازہ ان کے گھروں پر لہرانے والے پرچم کے سائز سے نہیں لگایا جاتا تھا۔ آپ کی انفرادی شناخت اور آپ کا بطور ایک اکائی وجود آپ کی قومیت کے احساس کے لیے کافی تھا۔اُس وقت یہ ہرگز اندازہ نہیںہوتا تھا کہ صورت ِ حال کتنی تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ 1960 ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ صرف اس لیے زیر ِ عتاب آیا کہ وہ قوم پرستی کے فارمولے کو من و عن تسلیم نہیں کرتا تھا۔ اُس وقت بطور شہری اپنے حقوق کی بات کرنے کے لیے ذرا سی لب کشائی بھی گناہ کے مترادف تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ حب الوطنی کا تعین کرنا طبقۂ اشراف کی اجارہ داری تھی۔ اس پر کسی کو اختلاف کی اجازت نہ تھی۔
پاکستان کی موجودہ صورت ِحال گزشتہ تیس برسوںسے ہونے والی تبدیلی کا ایک حصہ ہے۔ مرکزی قومی دھارے کی اہمیت کو بابائے قوم محمد علی جناح ؒ نے بھی محسوس کیااور صوبائیت کو ایک مرض قرار دیاتھا۔ یقینی طور پر مسٹر جناحؒ کسی مذہبی ریاست کا تصور نہیں رکھتے تھے لیکن وہ یہ ضرورچاہتے تھے کہ قوم ایک اکائی کے طور پر دکھائی دے۔۔۔ ایک ایسی اکائی جس کی زبان، شناخت اور ثقافت ایک ہو۔ قائد ِ اعظم نے نسلی قوم پرستی کو مذہبی قوم پرستی سے بدلنا ریاست سازی کا اصول قرار دیا۔ تاہم یہ ایک مشکل عمل تھا کیونکہ بہت جلد اس بات کا احساس ہو گیا کہ ملک کے دونوں حصے ایک زبان پر متفق نہیں ہیں، اس لیے ان پر کوئی ایک قومی زبان مسلط نہیں کی جاسکتی۔ بعد میں آنے والی حکومتوںنے دیکھا کہ مذہب کے نام پر قوم کو ڈھالنا نسبتاً آسان مرحلہ تھا۔
پاکستان کے ابتدائی تصور کو من و عن نافذ کرنے کی کوشش میں سرکاری افسر شاہی نے ایک قومیت کا تصور پھیلایا۔ آبادیوں میں فوجی چھائونیوں کا قیام، عوام کے مخصوص گروہوں کی قومی اداروں میں بھرتی ، انتہا پسند تنظیموں کے قیام سے اس تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں تشدد، انتہا پسندی اور فساد نے سراٹھایا۔ تاہم ریاست اس کے لیے تیار تھی کیونکہ ان کے نتیجے میں مختلف گروہوں کو کمزور کرنے کا موقع ہاتھ آتا تھا۔ افسرشاہی نے بھی ان خیالات کی ترویج شروع کردی کہ اس قسم کے جذبات کے پیچھے ضرور غیر ملکی دشمن طاقتوں کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ وفاق ِ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان جذبوں کو کچلنے کے لیے تشدد اور قتل و غارت لازمی ہوگئی۔ اس افراتفری کے نتیجے میں قتل و غارت تو ہوئی لیکن اس کی قیمت پر ایک مقصد حاصل کرلیا گیا۔ اب ہو سکتا ہے کہ عام بلوچ، سندھی یا سرائیکی پنجاب کو برا بھلا کہیںلیکن وہ رفتہ رفتہ مذہبی قومیت کے سانچے میں ڈھلنے لگے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جنوبی ایشیا میں عالمی کھلاڑیوں کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سے بلوچستان کا مسئلہ اہمیت کھوبیٹھا۔ وہاں پر ریاستی اداروںکے حمایت یافتہ دائیں بازو کے مذہبی گروہوں کی موجودگی اور تقویت کی وجہ سے اس مسئلے کی شدت کو دبایا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ایک مسئلہ باقی ہے۔۔۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے پشتون‘ مذہب کو صرف ایک میٹھی گولی نہیں سمجھتے، وہ اپنی تشریح کے مطابق اس کا نفاذ بھی چاہتے ہیں۔
پاکستان کی قیادت کی تاریخی نااہلی ایک فارمولے کو آگے بڑھاتی رہی ہے کہ مذہبی بنیادوں پر قومیت کی تشکیل تمام مسائل کوحل کرسکتی ہے؛ تاہم کیا مسٹر جناح ایسا ہی چاہتے تھے؟ کیا وہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے؟ کیا اُن کے پیشِ نظر ایسی ریاست تھی جس میں قومیت مذہب کے سانچے میں ڈھل کر ایک اکائی بنے؟ تاہم جناح کے بعد آنے والی قیادت نے Muslim Zion قائم کرتے ہوئے یہاں اقلیتوںکے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ ملک میں موجود مختلف فرقے اس بات سے ضرور متاثر ہوتے ہیں کہ ملک پر کس کی حکومت ہے۔مذہب کو سیاست کا بنیادی عنصر قرار دینے اور قرار داد ِ مقاصد منظور کرنے پر بارہ مارچ 1949ء کو پاکستان کے پہلے وزیر ِخارجہ، سر ظفر اﷲ خان، نے دستور ساز اسمبلی میں ایک زور دار تقریر کی۔ تاہم مذہبی سیاست کو اگر جمہوریت کے ساتھ مدغم کیا جائے تو یہ صورت ِحال سامنے آئے گی کہ عوام کی اکثریت (جمہوریت) ہی مذہب کے پیمانے طے کرے گی۔
اگر مذہب کے پیمانوں کوجمہوری حکومتیںطے کریں تو اس کا مطلب ہوگا کہ جس کی بھی اکثریت ہوگی ، وہ اپنی مرضی کا مذہب نافذ کرسکے گا ۔ ہمارے ہاں ہونے والے تجربات بتاتے ہیںکہ جب دین کو سیاست کے ساتھ مدغم کیا جاتا ہے تو نتائج مختلف نکلتے ہیں۔ نظریات، خاص طور پر مذہبی نظریات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت سے پیچیدہ سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ علامہ اقبال جیسے روشن خیال اور تعلیم یافتہ شخص نے بھی مختلف فرقوں کی طرف سے دین کی تشریح کی مخالفت کی۔ چنانچہ مذہب کی بنیاد پر قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دینے کی وجہ سے لوگوں کے جذبات آسانی سے مشتعل ہوجاتے ہیں اور تشدد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان میںرہنے والے زیادہ تر لوگ جبر کا ماحول پاتے ہیں۔ اب وہ کھلے دل سے یومِ آزادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے یا اس دن خوشی نہیں مناتے بلکہ اُن کے دل پر خوف و خدشات جاگزیں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ مذہبی جذبات زیادہ سے زیادہ شدید ہوتے جارہے ہیں۔ شاید ہمارے نزدیک ہمارے سفر کی یہی منطقی منزل ہے۔