سیاسی عمل کا اختتام

گزشتہ دس سے پندرہ دنوں کے دوران آئین، قانون کی حکمرانی، گڈ گورننس، جمہوریت اور اسی طرح کے کئی الفاظ بہت سے افراد کی زبان پر ہیں، اگرچہ ہرکسی کے نزدیک ان کے مطالب مختلف ہیں؛ تاہم جب ہم پیش آنے والے واقعات کی طرف دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ بے معانی ہیں۔ درحقیقت اس وقت جو کچھ ہورہا ہے، اس کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ طاقتور عوامی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے اپنے ذاتی فائدے کے لیے سیاست کے غلط استعمال سے ہے۔ اس کھیل میں فتح اُس فریق کی ہوگی جو عوام کی سوچ کو اپنی مٹھی میں لیتے ہوئے اُنہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ ان کے مسائل کا حل صرف اُس کے پاس ہے۔
اس کھیل میں میڈیا بھی شراکت دار بن چکا ہے ۔ یہ خود کو کنگ میکر سمجھتا ہے لیکن دراصل یہ بھی کسی کے ہاتھ میں مہرہ ہے۔ اس وقت میڈیا احتجاج کرنے والے لوگوں اوران کے قائدین کے ساتھ الفت و یگانگت کی داستان رقم کرتے ہوئے نت نئی کہانیاں اور بیانات لے کر سامنے آرہا ہے۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ملک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاںعرب دنیا میں آنے والے انقلاب کی طرح کی پیش رفت کے بغیر تبدیلی نہیں آسکتی۔ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ کارپاکستانی حکومت کی بات کرتے ہوئے شام کے اسد اور مصر کے حسنی مبارک کی مثالیں دے رہے ہیں۔ 
پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کوپور ا کریڈٹ دینا ہوگاکہ اُنھوںنے ایک مقبول نعرے کو اپنے تصرف میں لے لیا ہے ۔ موجودہ لانگ مارچ میںشام اور مصر یا نیلسن منڈیلااور مہاتما گاندھی کاحوالہ شامل کرنے کا مقصد عوام کو جھنجھوڑتے ہوئے اس حد تک کنفیوژن کا شکار کردینا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ جس نعرے پر یقین کررہے ہیں وہ درست ہے یا غلط۔ یقینا پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے پاس احتجاج کرنے کا حق ہے ۔ اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ حکومت گورننس کو بہتر بنانے میں ناکام رہنے پر مورد ِ الزام آتی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے مقام پر کیسے پہنچ گئے جہاں ایک حکومت کا گلا دبانے کے لیے ایسا انتہائی اقدام واحد آپشن دکھائی دینے لگا؟پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں کے علاوہ بہت سے ایسے افراد ہیں جو حکومت کی نااہلی اور غیر فعالیت کے بارے میں شاکی رہتے ہیں لیکن ہم کسی اور دھڑے سے ایسی بلند آواز میں تبدیلی کے نعرے نہیں سنتے جیسے ''نیا پاکستان‘‘ بنانے کے دعویدار لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہ بمشکل ہی سنتے ہیںکہ میٹرو بس منصوبے، جس کی وجہ سے اسلام آباد میں غریبوں کے بہت سے نام نہاد حامی مرد وخواتین کو بہت تکلیف ہوتی ہے ، سے کم آمدنی والے افراد کو باکفایت اور عمدہ سفری سہولیات حاصل ہوںگی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کی ترجیحات غلط ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ وہ ایسے بہت سے کام کرسکتی تھی جن سے ہوسکتا ہے کہ حکومت کی بہت زیادہ تشہیر تو نہ ہو لیکن ان سے بہتری آسکتی ہے۔تاہم ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عام لوگ تعمیر ہونے والے انفراسٹرکچر کی طرف دیکھتے ہیں۔ 
عمران خان کا دعویٰ کہ خیبر پختونخوا کے لوگ اُن کو چاہتے ہیں، اس وجہ سے ہے کیونکہ وہاں کے عوام کی اکثریت نے اُنہیں ووٹ دیا تھا ۔ تاہم اب ان میں سے بہت سے لوگ عمران خان سے ناراض ہیں کیونکہ اُنھوںنے اپنے بلندو بانگ دعووںکے برعکس کچھ بھی کارکردگی نہیں دکھائی۔ خیبر پختونخواکے زیادہ تر پشتون اور دیگر قومیتیں انفراسٹرکچر کی کمی کا شکوہ کریں گے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی خامیوں کو بھی کبھی زیر ِ بحث نہیںلایا گیا۔ کیا یہ معاملات ہمارے لیے حیران کن ہیں؟
پاکستان کے موجودہ حالات کا مشرقِ وسطیٰ سے موازنہ خطرناک ہے۔ اگرچہ ہم تبدیلی کے جوش میں مثال کے طور پر قاہرہ میں آنے والے انقلاب کا ذکرکرتے ہیں ، لیکن ہم ان مخصوص حالات کو فراموش کردیتے ہیں اور ان افراد کو بھی بھول جاتے ہیںجو انقلاب لائے لیکن بعد میں ناکام ہوگئے اور سائیڈلائن پر کردیے گئے۔ مصر کے تعلیم یافتہ اور لبرل نوجوان، جن کے ٹویٹر پیغامات نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا، کبھی بھی فتح یاب نہیں ہوپائے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک ِ انصاف یا 
پاکستان عوامی تحریک کے رہنماہی ایسے نہیں جو نئے پاکستان کی بات کررہے ہیں، بلکہ کچھ اور، جیسا کہ جماعت ِ ا سلامی، جماعت الدعوۃ اور اس طرح کی کچھ اور تنظیمیں بھی نیا پاکستان بنانے کی دعویدار ہیں۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھی یقین نہیں ہے کہ انقلاب لانے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کن قوتوں کو آن بورڈ لیں گے؟ مزید یہ کہ اپوزیشن اور حکمران جماعت ایک ایسی مسابقت میں الجھ چکی ہیں جہاںایک کو پہنچنے والے نقصان سے ہی دوسرا فریق مطمئن ہوگا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش میں جہاں ہر کوئی مداخلت کے لیے فوج کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائے۔ موجودہ لانگ مارچ کا اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ برآمد نہیںہوگا کہ ملک میں سیاسی عمل کا خاتمہ ہوجائے گا اورافہام و تفہیم کی کسی درمیانی راہ کی بجائے انتہا پسند رویے پروان چڑھیں گے۔ 
ان حالات میں نرم یا سخت فوجی مداخلت یا کسی مذہبی تنظیم کو تقویت ملنے کے علاوہ اور بھی خدشات ہیں۔ ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ'' نئے پاکستان‘‘ کی قیادت توقع کے مطابق کارکردگی دکھاسکے گی یا نہیں۔میڈیا کی طرف سے پھیلائے گئے تاثر سے ہٹ کر کیا ہم نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ اس قیادت کی اصل صلاحیت کیا ہے؟پی ٹی آئی میں بڑے بڑے جاگیر دار اور وہ پیرموجود ہیں جواپنے سامنے لوگوں کی گردن خم دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور میڈیا کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ، 
لیکن روایتی سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد کی موجودگی میڈیا کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے مخدوم اور جاگیردار آسمان سے اترے ہیں؟ایسے تاثر کو کیوں تقویت دی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کوپس ِ پشت ڈال کرغریب عوام کے حقو ق کے لیے کھڑے ہوںگے جبکہ یہ غریب عوام کو اپنے نزدیک بھی نہیں کھڑا ہونے دیتے؟آج کل ''درمیانہ طبقہ، غریب افراد اور گورننس‘‘ جیسی اصطلاحیں بکثرت استعمال ہوتی ہیں۔رئیس اور متمول افراد بھی خود کو مڈل کلاس کے افراد قرار دیتے ہیں۔ 
کیا ہم سوچ سکتے ہیں کہ حقیقی درمیانی طبقہ یا پسے ہوئے لوگ اس تبدیلی سے خوش ہوںگے یا استحکا م سے ؟ہم اس ملک میں مزید افراتفری اورانتشار کے متحمل نہیںہوسکتے ۔ یہاں ان کا اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ برآمد نہیںہوگا سوائے اس کے کہ تمام افراد کسی تیسری قوت کی طرف دیکھنا شروع کردیںگے۔ پاکستان شام یا عراق یقینانہیں ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کا کھیل کھیلنے والی جماعتوں کو ان ممالک سے حاصل ہونے والے سبق سے بھی صرفِ نظر نہیںکرنا چاہیے اور انتہائی رویے اپنانے کی بجائے ڈائیلاگ کی طرف بڑھنا چاہیے۔ خواہش ہے کہ مارچ کرنے والے افراد کے جوشیلے رہنما اور حکومت حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملک کوشام یا نائیجریا بننے سے بچائیںگے۔ جب خواب ٹوٹ جاتے ہیں تو جذباتی لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یقینا ملک کو ایسے افراد کے نرغے میں دیکھنا افسوس ناک بات ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں