دیگر کالمز
رؤف کلاسرا

فوجی مداخلت ہوگی یا نہیں؟

آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن افراد سے بھی ملاقات ہوتی ہے وہ یا تو لانگ مارچ کے حوالے سے پریشان ہوتے ہیں یا پھر اُنہیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیںملک میں مارش لا تو نہیں لگ جائے گا۔ جو لوگ مارشل لا کے حوالے سے پریشان ہیں‘ ان کے خدشے کو بے بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کچھ لوگ اندر کی خبریں جاننا چاہتے ہیں تا کہ ان کی روشنی میں وہ خود کونئی صورت ِحال کے مطابق ڈھال سکیں۔ موجودہ حالات جس تیز ی سے بدل رہے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ اس قدر ذہنی تنائو کا شکار ہو جائیں کہ پھر ان حالات کاجو بھی نتیجہ نکلے، وہ سکون کا سانس لیں کہ تنائو تو ختم ہوا۔ 
بہرحال یہ یک طرفہ جنگ ہے۔ عام آدمی حکومت کی موجودہ کارکردگی سے ناخوش تو ہے مگر ''نیا پاکستان‘‘ کا ترانہ بھی اس بلند آہنگ میں بجایا جارہا ہے کہ اس کے مقابلے میں ابھرنے والی دیگر آوازیں دب کر رہ گئی ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس نئے تصور کے شور شرابے میں جو تصور ابھر کر سامنے آرہا ہے وہ یہ کہ پاکستان کے بچائو کا دارومدار صرف ایک آدمی۔۔۔ عمران خان۔۔۔ پر ہے۔ صرف ان کے پاس ہی حق ہے کہ وہ منتخب ہوں اور جو انہیں ووٹ نہیں دے گا‘وہ توہین کا مرتکب ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا کے زیادہ تر دھڑے اس تمام سیاسی تماشے کو دکھاتے ہوئے اشتہارات کا وقفہ بھی نہیں لیتے۔ اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس نقصان کی تلافی وہ کیسے کریں گے؟
حالیہ سیاسی جمود کے نتیجے میں ایک نرم شب خون کی راہ ہموار ہوچکی ۔ ہو سکتاہے کہ حکومت اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب 
ہوجائے لیکن اس کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اگر مارچ کرنے والے کل اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں لیکن حکومت کی باقی مدت دنیا کو یہ باور کرانے میں گزرجائے گی کہ اقتدار پر اسی کاکنٹرول ہے۔درحقیقت وزیر ِ اعظم کسی درمیانی درجے کی ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاست کے سربراہ کی بجائے کسی چھوٹی سی انتظامیہ کے باس لگتے ہیں۔ اب اُن کے پاس داخلی امور کی انجام دہی میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیںہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے سرپر منڈلانے والا خطرہ قدرے کم ہوجائے جب معاملات کو پسِ پردہ رہ کر کنٹرول کرنے والے کچھ افراد گھر چلے جائیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے وہ لوگ جن کے ہاتھ میں گھوڑوں کی لگامیں ہیں، اپنی من مانی کرنا پسند کریں۔ اس صورت میں جمہوریت کا تختہ الٹے جانے کا خطرہ پوری شدت سے موجود ہے۔ 
جس چیز نے فی الحال اس خطرے کو ٹال رکھا ہے ، وہ یہ غالباً یہ خیال ہو گا کہ اگر موجودہ حکمرانوں کو ہٹا دیا جائے تو ان کی جگہ کون لے گا؟دفاعی اداروں میں بھی اتفاق ِ رائے ہے یا نہیں‘ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ یہ دعویٰ اپنی جگہ پر کہ فوج سیاسی معاملات میں براہ ِ ر است مداخلت نہیںکرے گی کیونکہ شمالی وزیرستان اوراب مشرقی ِ سرحد پر مصروف ہے لیکن بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ مقتدر حلقے ایک ایسی سویلین قیادت پر اعتماد نہیں کریں گے جو ان کے اختیار کو کم کرنے پر تلی ہوئی ہو۔ جن کے پاس بے پایاں قوت ہوا کرتی تھی، وہ اس کو مرحلہ وار کھوتا ہوا دیکھ کر اپنے اعصاب پر کنٹرول نہیں رکھ پائیںگے۔ سویلین حکومت انہیں خوش رکھنے یا ان کی رائے کو منقسم رکھنے کے لیے بہت سی غیر ضروری رعایتیں دینے پر بھی راضی ہوسکتی ہے لیکن سول حکومت کی طرف سے غیر جمہوری طاقتور عناصر کے مفاد کو چیلنج کرنے کی پالیسی اُنہیں تائو دلا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اعلیٰ فوجی افسران کے چند ماہ بعد ریٹائر ہونے کی وجہ سے صورتِ حال تبدیل ہوجائے اور نئی فوجی قیادت اس سوچ کی حامل نہ ہو، لیکن اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ملک مزید پندرہ دن یا ایک ماہ تک انہی حالات کا شکار رہتا ہے تو معاملات مزید خرابی کی طرف چلے جائیںگے۔ اگر حکومت قائم رہ بھی گئی تو بھی اس کی اخلاقی اتھارٹی ختم ہوجائے گی۔ 
اگر کوئی پاکستان کے حالات کو دور سے دیکھ رہا ہو تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ کیا پاکستان ایک افریقی ریاست تو نہیں بن چکا ہے؟اشرافیہ طبقے میں طاقت کے لیے شدید نوعیت کی رسہ کشی جاری ہے ۔ وہ یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ ملک اور اس کے عوام ایسے ڈراموں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس وقت پاکستان میں ہر طرف افراتفری دکھائی دیتی ہے۔ اقتدار کے حصول اور اپنے حریفوںکونیچا دکھانے کے خبط میں رہنما عوام اور ریاست کے مفاد سے بیگانہ دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کو مالی بحران سے گھائل کرنے کے لیے لوگوں سے یہ کہنا کہ وہ ٹیکس ادا نہ کریں یا سرکاری ذرائع سے رقوم نہ بھیجی جائیں، کو ایسی مکروہ روایت قرار دیا جاسکتا ہے جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کل عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو کیا ہوگا؟ وہ اس مثالی کردار پر ہرگز پورا نہیں اترتے جس کی جھلک اُنھوںنے اپنے پیروکاروںکو دکھائی ہے۔ یہ احتجاج نہیں بلکہ سیاسی جرم ہے جو اپنی جگہ پر اتنا ہی برا ہے جتنے وہ نقائص جو وہ حکومت میں نکالتے ہیں۔ 
ہم موجوہ سیاسی حالات کے منفی اثرات کے بارے میں بہت کم گفتگو سنتے ہیں۔اس نے ملکی معیشت کو کمزور کردیا ہے اور لوگوں کے ذرائع آمدن ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں، جن سے میں نے حالیہ دنوں بات کی، کو شکایت ہے کہ جب سے لانگ مارچ اوردھرنوں کا یہ سیزن شروع ہوا ہے، ان کے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں۔لوگ صرف اس وجہ سے نوحہ کناں نہیں اور جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس متوازی ذرائع آمدن بھی ہوتے ہیں۔ ایک اور بات، حکومت کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ ان کی وجہ سے ٹکرائو کا خدشہ شدت اختیار کرجائے گا۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر عوام کے درمیان تصادم ہوا تو جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کا خدشہ سچ ثابت ہوگا۔ 
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فوجی جنرل کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیںہوگی کہ وہ اس صورت ِ حال سے کیسے نمٹتے ہیں۔ بعض کاسہ لیس بنگلہ دیش ماڈل کی بات کرتے رہے ہیں۔ تاہم وہ بھول جاتے ہیں کہ ڈھاکہ کا سیاسی نظام اور عوام کے سامنے انتخابی چوائس فوجی مداخلت کے بعد بھی تبدیل نہیںہوئی تھی۔ اس وقت ملک کو درپیش چیلنج اس قدر شدید ہیںکہ فارن کوالیفائیڈ ماہرینِ معیشت، بینکار اور ترقیاتی منصوبہ سازی کے ماہرین ان کو سلجھانا تو کجا، ان کی فہم بھی نہیں رکھتے۔ یہ مانا کہ امریکہ میں بہترین یونیورسٹیاں ہیں لیکن وہاں سے فارغ التحصیل ماہرین ترقی پذیر ممالک کے معاملات سدھارنے کی بجائے بگاڑنے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے تجربے کا متحمل ہوسکتا ہے؟یہ وقت ذاتی انا کی تسکین کا نہیں بلکہ ملک کے اجتماعی مفاد کے لیے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کا ہے۔ وزیر ِ اعظم کے استعفے پر اصرار کرنے کی بجائے بہتر ہوتا اگر طاہرالقادری اور عمران خان اداروںکو درست کرنے اور ملک کو بہتر راستے پر گامزن کرنے کا وعدہ لیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم ایک اندھے گڑھے میں گرنے جارہے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں