ڈیٹرنس کی منطق

ایک سینئر ریٹائرڈ سفارت کار ، جسے ڈیٹرنس کا گرو کہا جاتا ہے، نے اپنے حالیہ شائع ہونے مضمون میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کمزور جوہری ڈیٹرنس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس ضمن میں پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جس کی وجہ سے توجہ اور طاقت کا ارتکاز تقسیم ہوجاتا ہے، سے لے کربھارت کے کولڈ سٹارٹ اور مودی سرکارکے جارحانہ رویے تک، دس وجوہ بیان کرتے ہیں۔ موصوف سفارت کارنے جنوبی ایشیا پر منڈلاتی ہوئی ایٹمی تباہی، جس کی وجہ دہلی کی کشمیر میں بڑھتی ہوئی جارحیت ہے، کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ۔ تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ ڈیٹرنس کے مکینکس پاکستان کی بجائے بھارت کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منجھے ہوئے سفارت کار کے بیان کردہ دس نکاتی معروضات سے باہر کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ سیاسی مفاد کے لیے کشمیر میں محاذآرائی کو بڑھا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کو پاکستان پر شک ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان قیام ِ امن کے عمل ، جو پاکستان کے موجودہ وزیر ِ اعظم کے دل کی آواز ہے، کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں اپنی دوسری مدت کے دوران نواز شریف اور حتیٰ کہ پی ایم ایل (ق) کی حکومت بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کاروباری طبقے کا بھارت کی طرف جھکائو پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن پنجاب بھارت کے ساتھ تجارتی لین دین کی بجائے محاذآرائی بھی چاہتا ہے۔ اس وقت نواز شریف کی طرف سے بھارت کے ساتھ قیام ِ امن کی بات اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ 
ڈیٹرنس کے ماہرین کے مطابق اس وقت بھارتی حکومت کے جارحانہ رویے کی وجہ سے قیام ِ امن کے لیے صورت ِ حال بہت حوصلہ افزا نہیں۔ بھارتی حکومت نے مبینہ طور پر نواز شریف، جب وہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے دہلی گئے، کی کشمیر ی رہنمائوںسے ملاقات کرنے کی خواہش کا احترام نہ کیا۔ نئی دہلی کا خیا ل ہے وہ عالمی منظر پر اہم ملک بنتے جا رہے ہیں، اس لیے اُنہیں خود کو درپیش خطرات سے اب مختلف طریقے سے نمٹنا ہوگا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دنیا بھارت کے ساتھ روابط بڑھانے میں اپنا فائدہ دیکھتی ہے، اب وہ جنوبی چین کے سمندر میں چین کے خلاف بھی اشتعال انگیز کارروائی کرنے سے نہیں چوکتے ۔ اسی طرح مودی سرکار دیکھنا چاہتی ہے کہ راولپنڈی اب کشمیر کے تنازع کو کس حد تک اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے غیر سرکاری ترجمان بنتے ہوئے وہی کچھ کیا ہے جو ڈاکٹر عبدالقدیر1980 ء کی دہائی میں جنرل ضیا کے لیے کرتے تھے۔۔۔یعنی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی وغیرہ دینا۔ مجھے کئی سال پہلے اسی مذکورہ سینئر سفارت کار کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد ہے۔ جب میں نے ڈیٹرنس کی صلاحیت کے ذکر پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تو اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ سرحد پار اپنے ہم منصب کو متعدد مرتبہ سنگین نتائج،جیسا کہ بھارتی شہروں میں سوٹ کیس بموں کا پھٹ جانا، کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ ہم اپنے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اس لیے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا۔ 
اسی فارمولے کی بنیاد پر کارگل کی مہم جوئی دیکھنے میں آئی، تاہم کارگل آپریشن کے دوران ایٹمی صلاحیت پاکستان کو سبکی سے نہ بچا سکی۔ اگر کارگل آپریشن کی مکمل تحقیقات ہوتی تو شاید ہم یہ جان پاتے کہ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ جوہری چھتری کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ اس نے ہمیںایسی بڑی جنگ سے بچا لیا جیسی ہمیں 1965ء میں لڑناپڑی تھی لیکن اس کی وجہ سے ہم کچھ بہت سے معاملات میںپیش رفت کرنے کا موقع گنوا بیٹھے اور کوئی فائدہ نہ اٹھاپائے۔ یقینا یہ سبق بھارتی ایڈمرل (ر) راجہ مینن(Raja Menon) جیسے مصنفین اور ماہرین نے اخذ کیا ہے ۔ اُنھوںنے اپنی کتاب میں دلیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے فوجی افسران حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنائو کو اُس درجے تک نہیں بڑھانا چاہتے جہاں کسی کو روایتی سے غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کاسوچنے پر مجبور ہونا پڑے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں نقصان بے اندازہ ہے۔ اس لیے ان کے استعمال کا کہنا، جیسا کہ مشرف کا بیان، آسان ہے لیکن ان کا عملی استعمال تقریباً ناممکن ہے۔ 
ریٹائرڈ سفارت کار اور فوجی جنرلوں کی پریشانی یہ نہیں کہ پاکستان اپنا تحفظ کرپائے گا یا نہیں بلکہ یہ کہ اب مینن کے اندازے کے مطابق مودی حکومت پاک فوج کے اعصاب کا امتحان لینے پر تلی ہوئی ہے۔ اگرچہ ایک مشہور بھارتی صحافی اور تجزیہ کار پروین سوامی کا کہنا ہے دہلی کی بارڈر پر جارحیت پاک فوج کے رویے میں تبدیلی نہیں لاسکتی، لیکن بھارت یہ دیکھنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ کشمیر میںمداخلت سے اجتناب کرنے، خاص طور پر پراکسی جنگ کو استعمال کرنے سے باز رہنے، پر اسلام آباد کو کس حدتک مجبور کرسکتا ہے؟ ۔ فائرپاور سے انتہا پسندوں کے دستوں، خاص طور پر ''اے کیو آئی ایس‘‘(القاعدہ کی بر ِ صغیر میں شاخ) کو کشمیر میں داخلے سے روکا جاسکتا ہے۔اے کیو آئی ایس بھی کشمیر پر توجہ مرتکز کررہی رہے۔ 
جوہری ڈیٹرنس کام کرے گی تاہم اگر بھارت مفاد ات کی چھتری تلے دبائو ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی تو پھرایسا نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستانی سرحد پر گھیرے میں آئے ہوئے افراد بے قرار ہوکر کوئی بھی حرکت کرسکتے ہیں جو پاکستان کے لیے مہنگی ثابت ہوگی۔ بھارت کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ عالمی برادری پہلے ہی جنگوں کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکارہے ، اس لیے کوئی بھی پاکستان کی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ تاہم یہ ایک خطرناک سوچ ہے۔ مودی کے لیے بھی خطرات کا لیول یہی ہے کیونکہ وہ نہ صرف طاقتو رحکمران بلکہ معاشی طور پر بھی کامیاب بننا چاہتے ہیں۔ جنگ اس خواہش کو دھوئیں میں اُڑا دے گی۔ فوجی طاقت بڑھانے کے فارمولے کا محتاط انداز میں جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔ 
مودی کا منصوبہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر فائدہ نظر آئے تو پاکستان کے بات چیت کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر مفاد کی قدر وقیمت پر فوج کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگ کے لیے تربیت یافتہ افراد بیانات دیتے ہوئے ماحول خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یقینا پاک بھارت کے درمیان جوہری تصادم کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ڈیٹرنس کا موضوع زور و شور سے زیرِ بحث ہے۔ کم از کم پاکستان میں نئے تربیت یافتہ ڈیٹرنس کے ماہرین کی فوج موجود ہے اور اُنھوںنے اس کا لیول بڑھانا ہے تاکہ اپنی فعالیت ثابت کر سکیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں