ایک لڑائی نہیں‘ جنگ جیتیں

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں سول اور ملٹری کا اختلاط برائے حکومت رونما ہونے جارہا ہے۔ تمام اہم فیصلے یا تو فوج کرے گی یا ان پر اثر انداز ہوگی جبکہ سول حکومت چپ چاپ الزام سہنے کے لیے اپنی جگہ پر موجود ہوگی۔ اس کی حالت ایسے محلول کی سی ہوگی جس پر طرح طرح کے تجربات کیے جاتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس میں ہر رہنما، چاہے اُس کا کسی بھی پارٹی سے تعلق کیوں نہ ہو، نے بڑے ادب سے سرجھکاتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کردی۔ ان جماعتوں کے بارے میںسوچ کر ہنسی آتی ہے جنھوں نے فوجی عدالتوں کی حمایت کرنے سے پہلے آرمی چیف سے وعدہ لیا کہ ان عدالتوں کو ان کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا، یا ان کا محدود استعمال کیاجائے گا۔ اس سے بھی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ روشن خیال سول سوسائٹی، جو اس پیش رفت کے مضمرات یا دور رس نتائج سے آگاہ ہے اور مجموعی طور پر پاکستانی عوام کا خیال ہے کہ ان نازک حالات میں جمہوریت کی اہمیت ثانوی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ حال ہی میں ایک واقف کار نے کہا۔۔۔ ''پہلے ہمیں سکیورٹی کے مسائل سے نمٹنا ہے، جمہوریت کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ ‘‘اس سسٹم ، جو پاکستان میں قائم ہونے جارہا ہے، کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ذمہ داری تقسیم ہوجائے گی اورکوئی نہیں جانتا کہ کسے مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے۔ 
نیا سیاسی اورانتظامی ڈھانچہ انسداد ِ دہشت گردی کی پالیسی نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ درحقیقت انسدادِ دہشت گردی کے لیے تمام زور ''نیشنل ایکشن پلان ‘‘ پر مرکوز کیا جائے گا‘ ابتدائی آٹھ نکاتی فارمولہ، جسے بعد میں توسیع دے کر بیس نکات تک پھیلا دیا گیا۔یہ دہشت گردوں کو فنڈز مہیا کرنے سے لے کر فرقہ وارانہ شدت پسندی کو کچلنے تک کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم حقیقی زندگی پاکستانی فلم ''وار‘‘ جیسی نہیں جس میں فوجی اور انٹیلی جنس کمانڈوز تمام منفی عناصر کوگولی مار کر ہلاک کردیتے ہیں۔ ہم یقینا امریکہ جیسے بھی نہیں جو صرف اور صرف فائر پاور پر انحصار کرتا ہے کیونکہ وہ اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے سامنے صورت ِحال یہ تھی کہ اُس کا دشمن اس کی سرحدوں سے باہر تھا اور وہ وہاں سے اس کی سرزمین پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔ دوسری طرف ہمارے لیے یہ صورت ِحال بالکل مختلف ہے ، کیونکہ ہمارا دشمن ہمارے درمیان ہی موجود ہے ۔ یہ حملے کر کے ضرورت کے وقت انڈر گرائونڈجا سکتا ہے۔ موقع پاتے ہی وہ اپنے مشن اور مرضی کے مطابق حملہ کرسکتا ہے۔ 
ہمارے ہاں دشمن کی شناخت کا مسئلہ بوجوہ اچھالا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ،جن میں قومی اداروں کے کچھ حلقے بھی شامل ہیں ، کا خیال ہے کہ دشمن بیرونی عناصر ہیں۔ چونکہ حالیہ حملے کے پیچھے مولانا فضل اﷲ تھا، اس لیے بہت امکان ہے کہ اُسے دشمن نے فنڈز مہیا کیے ہوں۔ دفاعی معاملات کے بعض نوخیز ماہرین دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ ہو سکتاہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فضل اﷲ بھی تو کبھی 'اپنا آدمی‘ تھا اور اس کے ان بہت سے افراد سے تعلقات ہیں جنہیں ابھی تک ''اپنے آدمی‘‘ سمجھاجاتا ہے کیونکہ ان کے نظریات ایک سے ہیں۔ فضل اﷲ اور پنجاب کے وسط میں موجود انتہا پسندوں میں صرف ایک ہی فرق ہے۔۔۔۔ موخر الذکرنے ابھی تک ریاست کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار نہیں اٹھائے ہیں۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے افراد، جو اچانک روپوش ہوگئے ہیں یا کچھ دیر کے لیے منظر ِعام سے اوجھل ہوگئے ہیں ، کے بھی ایسے ہی نظریات ہیں۔ مثال کے طور پر پنجابی طالبان کے رہنمائوں میں سے ایک نے بیان دیا تھا کہ وہ اب وہ پاکستان پر حملے نہیں کریں گے ، لیکن کیا اُس کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ اپنے نظریات سے تائب ہورہا ہے؟ہم اُن افراد کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو کسی علاقائی مطالبے یا کسی سیاسی مسئلے پر نہیں لڑرہے۔ ان کے پیش نظر ایک عقیدہ ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ اُس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بات بہت واضح طریقے سے سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لوگ کسی بھی طریقے سے، کسی بھی نئے بیانیے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے نظریات سے رجوع نہیں کریںگے۔ حکومت ِ پنجاب نے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے افراد کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کا پروگرام شروع کیا تھا۔ انہیں تربیت دینے کے بعد قرضہ جات فراہم کیے گئے ۔ اس کا بنیادی تصور یہ تھا کہ ہر کسی کو ملازمت فراہم کرکے انہیں شدت پسندی کی طرف مائل ہونے سے روکا جائے ۔ تاہم اس منصوبے کافائدہ بہت محدود تھا۔ اس کی خامیوں نے اس کی کامیابی کو دھندلا دیا۔۔۔۔ اس کی خامیوں کے دو پہلو تھے۔ پہلا یہ کہ اس میں ایک غیر معیار ی فارمولہ استعمال کیا گیا جو افراد اور ان کے مسائل کو انفرادی طور پر ڈیل نہیں کرتا تھا۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب میں تربیت یافتہ افراد کو الیکٹریشن بنادیا گیا، حالانکہ وہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ اس پروگرام کے ذریعے انتہا پسندوںکے اثر کا توڑکرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا کیونکہ ان کے جہادی نظریات ان لوگوں کے دل میں گہری جڑیں گاڑ چکے تھے۔ کچھ نے اس تربیت کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے افراد کے مراسم قائم کیے اور ان تک اپنی سوچ پہنچائی۔ بہت سے نوجوانوں کو اسی طرح انتہاپسندی کی طرف مائل کیا گیا۔ چنانچہ اس پروگرام کے ذریعے شدی پسندی میں مطلق کمی نہ آئی۔ اس کے باوجود ایسے پروگرام بنانے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، تاہم ضروری نہیںکہ وہ ہر حالات میں کام بھی دیں۔ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ جہادیوں کی صف شامل ہوجاتا ہے، وہ اس سے باہر نہیں آسکتا۔ ایسے پروگراموں کے ذریعے صرف اُن افراد کو باز رکھا جاسکتا ہے جن کی سوچ پر ابھی تک انتہا پسندی نے اثر نہ کیا ہو۔ جہادیوں سے ریاست کو کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور لڑنا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی حل نہیںہے۔ 
توسیع شدہ ایکشن پلان کے بیس نکات بنیادی نکات سے قدرے مختلف ہیں ۔ کہا گیا تھا کہ ان حالات میں صرف دہشت گردوں کے ساتھ جنگ ہوگی، لیکن نئے بیانیے میں انتہا پسندی کو بھی شامل کرلیا گیاہے۔ تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اس میں پرعزم دکھائی نہیں دے رہی۔ اگلے دن ایک مشہور ٹی وی اینکر کے تبصرے کے بعد ایک اقلیتی فرقے کے شخص کو کسی نے گولی مار کرہلاک کردیا۔ کیا وزیر ِ اعظم کا دعویٰ نہیں تھا کہ ریاست اقلیتوں کو بھی تحفظ فراہم کرے گی؟اس کے علاوہ، کیا ریاست دیکھتی رہے گی کہ غیر ریاستی عناصر جبراً عناصر کو دھمکیاں دیتے رہیں؟ جیسا کہ پہلے کہا کہ جب تک انتہا پسندوں کے نظریات پر ضرب نہیں لگائی جاتی، اس جنگ کو جیتنا مشکل ہوگا۔ کچھ معرکے جیتنے کے باوجود جنگیں ہاری جاسکتی ہیں کیونکہ منصوبہ سازوں کے سامنے طویل المدت منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ اس وقت حکومت کے پاس ایک اچھا موقع ہے کیونکہ سول سوسائٹی متحد ہے۔ وہ صرف ایک معرکہ نہیں، پوری جنگ جیتنا چاہتی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں