یقینا ہم خدا کی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتے۔ کیا یہ کم احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ایسے وزیر ِ داخلہ عطا فرمائے ہیں جو انتہائی سنگین حالات میں بھی سوگوار قوم کے لیے ظرافت کا سامان کرنا نہیں بھولتے۔ چوہدری نثار نے حال ہی اعلان کیا کہ فوجی عدالتوںسے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ''جیٹ بلیک دہشت گردوں ‘‘ کے سوا کسی کو سزا نہیں دیں گی۔ باوجود اس حقیقت کے کہ اُنھوں نے انسداد ِ دہشت گردی کی مروجہ اصطلاحات میں ایک اور اصطلاح کا اضافہ کردیا ، قابل ِ غور بات یہ ہے کہ کیا اُن کا اشارہ جلد کے رنگ کی طرف تھا؟ کیا ''جیٹ بلیک‘‘ سے مراد وہ دہشت گرد بھی ہیں جو اقلیتوں کے خلاف جرم کا ارتکاب کرتے ہیں؟ اگر پروپیگنڈے کی وجہ سے کسی کی جان چلی جاتی ہے تو کیا وہ بھی اس اصطلاح کے زمرے میں آئے گا؟یا پھر اگر بعض متنازعہ قوانین کی زد میں آکر کسی بے گناہ کی جان چلی جاتی ہے یا اکسانے پر لوگ کسی کی جان لے لیتے ہیں،یا پھر مسجد میں کسی پانچ سالہ بچے کو درندگی سے ہلاک کردیا جاتا ہے تو کیا یہ اصطلاح اُن کا بھی احاطہ کرے گی؟امید ہے کہ وزیر موصوف کو احساس ہوگا کہ ہر مجرم جیٹ بلیک نہیں ہوتا لیکن پھر سیاہی بذات ِخود ابہام بھی تو پیدا کرتی ہے۔
وزیر ِ داخلہ نے مزید فرمایا کہ یہ مجوزہ فوجی عدالتیں سیاسی جماعتوں، میڈیا یا مدرسوں کو ہدف نہیں بنائیں گی۔ لیکن پھر ایسی صورت ِحال بھی ہوسکتی ہے جب کسی سیاسی جماعت کے کارکن فرقہ وارانہ قتل میں ملوث ہوتے ہیں۔ کیا یہ بیان اشارہ نہیں کرتا کہ یہ سمجھوتہ ہوچکا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے والے اصل ذرائع کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا؟اگر اس نئے نظام کے تحت کچھ جماعتیں، جو دراصل جہادی کلچر کے پھیلائو کی ذمہ دار ہیں، مدرسوں کے جائزے کا راستہ روکنے کی پالیسی جاری رکھیں گی تو پھر کون سا نیا ایکشن پلان سامنے آرہا ہے؟ یا پھر اس میں نئی بات کیا ہوگی؟کیا یہ فوجی عدالتیں صرف اور صرف ان کیسز کے لیے ہیں جن میں ریاستی اداروں کو ہدف بنایا جائے گا؟تو پھر اس ملک میں شہریوں کا پرسان ِحال کون ہے؟
''رنگوں ‘‘کے اس کھیل میںہم یہ ہر گز نظر انداز نہیں کرسکتے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پھیلائو میں بعض مدرسے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ اُن کے نصاب کا بھی نہیں ، درحقیقت بہت سے اہم مدرسے انگریزی اور کمپیوٹر کی بھی تعلیم دیتے ہیں، اصل مسئلہ ان کے اساتذہ کے نظریات کا ہے۔ چونکہ انتہا پسندوں کے مختلف گروہوں کے حامی اور ارکان ان مدرسوں میں تدریس کرتے ہیں، چنانچہ وہ مذہبی احکامات کی تشریح بھی اپنے نظریات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں اسلامی تاریخ کا بہت کم علم دیا جاتا ہے ۔ کسی بھی تاریخی شخصیت کاجزوی اور من پسند پہلو سے ہی تعارف کرایا جاتا ہے، اور کسی حکم کی تشریح بھی ایک خاص انداز میں کی جاتی ہے۔
جب تک اس ذہنیت کو چیلنج نہیں کیا جاتا، ملک میں قیام ِ امن کا خواب اُدھورا رہے گا۔ یا پھر ہم فوج کو معاشرے کے ہر معاملے میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟پشاورسانحے، جس کے نتیجے میں آئینی ترامیم کے ذریعے سویلین اتھارٹی کو کمزور کیا جارہا ہے، کے بعد مدرسوں کی اصلاح کے عمل کو شروع کیوں نہیں کیا جاسکا؟یقینا اس ضمن میں مدرسے ہی واحد قصور وار نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ انگلش میڈیم سکول بھی انتہا پسندی کا پرچار کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے انتہا پسندگروہوں نے انگلش میڈیم سکول کھول رکھے ہیں۔ اسی طرح ان تنظیموں کے حمایت یافتہ گروہ سرکاری اداروں اور یونیورسٹیوں میں بھی اپنی توانا موجودگی رکھتے ہیں۔ ان کو چیلنج کرنے کے لیے ہمیں اپنے تمام نظامِ تعلیم کا از سرِ نوجائزہ لینا پڑے گا۔
یقینا یہ سب کچھ کرنا بچوں کا کھیل نہیں لیکن کچھ اقدامات ہیں جو ریاست آسانی سے کر سکتی ہے۔ وہ نئے قوانین کی بکھیڑ کی بجائے موجودہ قوانین کے نفاذ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ مثال کے طور پر حکومت اس قانون پر عمل کیوں نہیں کراسکتی جو سرکاری مساجد کو انتہا پسندی کی ترویج کے لیے استعمال کرنے سے روکتا ہے؟یا اُس قانون پر عمل درآمد کیوں یقینی نہیںبنایا جاتا جس کے مطابق مساجد اور مدارس کی الگ رجسٹریشن درکار ہوتی ہے۔ مساجد ایک ایسی عوامی جگہ ہوتی ہیں جہاں کسی کا بھی داخلہ بند نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انتہا پسند گروہ مساجد کو کنٹرول کرنے کے لیے اُس میں مدرسے کھول لیتے ہیں اور اپنے نظریات کی ترویج کے لیے استعما ل کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت یقینی بنائے کوئی گروہ بھی کسی مسجد پر اپنا کنٹرول مسلط نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے اپنے نظریات کے پھیلائو کے لیے استعمال کرے گا۔
اپنے تمام تر دعووں اور ٹھوس وعدوں کے باوجود حکومت ایسا ابہام پیدا کرتی دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے سول سوسائٹی بھی دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ۔ حکومتی بیانات کا کھوکھلا پن تواُس وقت ہی عیاں ہوگیا تھا جب سول سوسائٹی کو دھمکیاں دینے کے باوجود مولانا عبدالعزیز کے خلاف کچھ نہ کیا گیا۔ سول سائٹی کے ارکان مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا چاہتے تھے اور وہ ایک سرکاری مسجد تھی۔ ریاست کی بے عملی کی وجہ سے سول سوسائٹی بھی کوشش اور خواہش کے باوجود اپنے سماجی نظریات کی ترویج میں ناکام رہتی ہے کیونکہ انتہاپسندوں کے برعکس اس کے پاس کوئی مربوط اور واضح ایجنڈا نہیں ہوتا۔ چونکہ ان کے مفادات اور ایجنڈے میں یک سوئی کا فقدان ہوتا ہے ، اس لیے یہ اپنے لیے جگہ پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری نہیں کہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد اور گروہوں کی نظریاتی ہم آہنگی ہو لیکن کم از کم وہ تعاون کرتے ہوئے اپنے اختلافات اور تضادات کو پس ِ پشت ڈالتے تو دکھائی دیں۔ دوسری طرف انتہا پسند اور ملا، جن کی معاشرے پر غلبہ پانے میں ریاست نے تین عشروں کی عملی پشت پناہی کی، سول سوسائٹی
سے کہیںزیادہ پرعزم اور منظم ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے مقابلے پر جو لوگ ہیںوہ اُس وقت تک کچھ نہیں کرتے جب تک اُنہیں کہیں فنڈز نہ مہیا کردیے جائیں۔
مولانا عزیز کی طاقت صرف یہی نہیں کہ اُسے اندرونی طور پر حمایت ہوسکتی ہے بلکہ اُسے یقین ہے کہ سول سوسائٹی کے جو افراد اُس دن مسجد میں نماز ادا کرنے آنا چاہتے تھے ، وہ آئندہ دکھائی نہیں دیں گے۔سوال یہ ہے کہ ان احتجاج کرنے والوں میں سے کتنے افراد 365 دن تک روزانہ پانچ مرتبہ مسجد جائیں گے؟سول سوسائٹی کی کاوش کو اُس کے اندر سے زیادہ حمایت کی ضرورت ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والوں کو اس مسئلے پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ مذہب کو ایک طرف کرتے ہوئے انتہا پسندوں کے نظریات کا توڑ کرنابھی ممکن نہیں کیونکہ معاشرہ مذہب کے علاوہ کسی بیانیے کو قبول نہیں کرے گا‘ اس لیے مذہب کے حقیقی ، منطقی اور عقلی پہلو کو اجاگر کرنے اوراس مقصد کے لیے تمام باشعور افراد کی فکری کاوش درکار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ تحریک کے پیغام کو خواص کے طبقوں سے نکال کر عام آدمی تک پہنچانا ہوگا۔ یہاں مسئلہ خاص کوعام سے جوڑنے کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی آگے بڑھ کر نئے بیانیے کو اپنے سیاسی نصب العین کا حصہ بنانا ہوگا۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں داخلی کوششوں سے آگے بڑھایا جائے اور عطیات فراہم کرنے والوں کو زحمت نہ دی جائے ۔ معتدل سوچ رکھنے والے مذہبی علماکو اکٹھا کرکے کوئی راستہ نکالا جائے۔ لوگوں کو یہ بات یاددلائی جائے کہ انتہا پسندی کبھی بھی مذہب کابیانیہ نہیں رہی، یہ رجعت پسندی تاریخ کے مختلف ادوار میں سامنے تو آئی ہے لیکن یہ مذہب کی بنیادی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتی۔