پیرس میں دہشت گردی

ہمیں پیرس میں ہونے والے حملوں پر خاموش رہنے کے بجائے ان پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا میں اس موضوع پر آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی خاموشی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب کے سفیر نے دوسرے عالمی رہنمائوں کے ساتھ مل کر ہلاک ہونے والوں کی یاد میں کیے جانے والے مارچ میں حصہ لیا، لیکن اُن کے ملک اور بہت سے دیگر ممالک میں اس موضوع پر بات نہیں کی گئی۔ شاید مسلم ممالک میں ترکی واحد ملک ہے‘ جہاں چارلی ہیبڈو کی حمایت میں ایک بہت بڑا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم عمران خان کی شادی اور اس جیسے دوسرے معاملات سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ 
اگرچہ پاکستان سمیت زیادہ تر مسلم ریاستوں کی حکومتوں نے پیرس کے مقتولین کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکیا، لیکن قتل کی وجہ کو نظر انداز کر دینا ہی مناسب سمجھا گیا۔ پشاور حملے پر مضامین لکھے گئے، آراء ظاہر کی گئیں اور ٹی وی کوریج دی گئی، لیکن پیرس کے واقعے کا صرف ایک اخبار نے اپنے اداریے میں ذکر کیا جبکہ ایک اور نے اس پر ایک مضمون شائع کیا؛ تاہم ان دونوں مضامین میں ایک بات مشترک تھی کہ چارلی ہیبڈو کے طرزِ عمل پر الجزائر کے کواشی برادران کا رد ِ عمل ناگزیر تھا۔ 
اس وقت ہمارے پیش نظر دو متضاد رویے ہیں... ایک طرف ہم اپنے مذہب کے حوالے سے یورپی، خاص طور پر فرانسیسی رویے کو دیکھ رہے ہیں اور دوسری جانب مسلمانوں کے عقید ے اور مذہبی شعائر کا انتہائی احترام پیش نظر ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ دونوں سماجی اور سیاسی نظام غلطیوں سے مبرا نہیں۔ مذہب کے حوالے سے ہونے والے تلخ تجربے اور اس کو جواز بناتے ہوئے کیے جانے والے تشدد کی وجہ سے فرانس مذہب کے بارے میں ایک مخصوص رویہ رکھتا ہے‘ اگرچہ پاکستانی نژاد برطانوی مصنف طارق علی اور اس طرح کے بہت سے افراد چارلی ہیبڈو واقعے کو فرانس اور یورپ میں ہونے والے نسلی امتیاز کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اس دوران یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مذہب کے سیاسی پہلو کی آڑ میں مذہبی عقائد کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
عقائد کی بنیاد پر مسلم دنیا میں پائے جانے والے اختلافات کے باوجود یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ لازمی نہیں صرف بنیاد پرست ہی پیغمبر اسلامﷺ کی حرمت کے موضوع پر حساس ہو۔ مسلم دنیا میں مذہب اور مذہبی شعائر کی حرمت کے بارے میں رویوں کی شدت ایک جیسی نہیں۔ پیرس حملے کے حوالے سے دو مختلف مثالیں سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوکواشی بھائیوں نے گیارہ افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور پھر مزید دو حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں دو مسلمان بھی شامل تھے... ایک الجزائر سے تعلق رکھنا والا مصطفیٰ مراد جو میگزین کا کاپی ایڈیٹر تھا اور دوسرا مسلمان پولیس اہلکار احمد مرابط۔ ہم نہیں جانتے کہ ان دونوں افراد کی متنازع خاکوں کے بارے میں کیا سوچ تھی، لیکن ایک بات واضح ہے کہ اُنہوں نے اپنی اپنی جگہ پر میگزین کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ 
یہ امر ناگزیر ہے کہ دنیا کو پُرامن طریقے سے اپنے مذہب کے حساس موضوعات کے بارے میں بتایا جائے؛ تاہم ایسا کرتے ہوئے ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ کچھ کو ہماری حساسیت کا ادراک نہیں ہو پائے گا۔ اس صورت میں تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کرنا ہو گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، توہین کا معاملہ صرف مذہبی نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی ایشو بھی ہے۔ مختلف فرقے اپنے اپنے مفاد اور نظریات کے مطابق اس کی الگ الگ تشریح کرتے ہیں، اس لیے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ توہین کے قانون کے تحت‘ جو 1987ء میں جنرل ضیا نے بنوایا تھا، جن لوگوں کے خلاف زیادہ تر مقدمات درج ہوئے وہ مسلمان ہی تھے۔ 1987ء سے 2014ء تک جن 1434 افراد کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمات درج ہوئے ان میں 719 مسلمان ہیں۔ 
گزشتہ چند برسوںسے دیکھنے میں آیا ہے کہ مشکوک ثبوت کے باوجود توہین کا مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران ہمیں وہ واقعات بھی نہیں بھولنے چاہئیں جن میں عوام نے مشتبہ افراد کو تشدد کرنے کے بعد جلا کر ہلاک کر دیا؛ حالانکہ ان کے خلاف توہین کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ توہین کے قوانین کو زیادہ تر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے ایک سابق گلوکار کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں۔ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے اور اُن پر توہین کا الزام لگا۔ اس مبلغ کو جان بچانے کے لیے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لینا پڑی اور یہ ان کے کیس کا سب سے افسوس ناک پہلو ہے۔ اگر یہ کیس عدالت میں پیش ہوتا تو مختلف علماء کو مخالف نظریات پیش کرتے دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوتا۔ ایسا کرتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ وہ خود بھی بہت سے‘ سرخ لکیریںکراس کر جاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید بہت سا مٹیریل ہمارے ہاتھ بھی لگ جاتا جس سے ہم ایسے معاملات میں بیرونی دنیا کے ساتھ نمٹ سکتے کیونکہ اب دنیا زیادہ سے زیادہ توہین پر کمر بستہ ہو چکی ہے۔ 
تشدد کے نتیجے میں کسی کو آپ کے ''کاز‘‘ سے ہمدردی نہیں ہو سکتی، اس کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات مزید سنگین ہو جاتی ہے جب یہ تاثر قائم ہو جائے کہ اس معاملے کو جواز بنا کر القاعدہ کے انداز میں مغرب پر حملہ کیا گیا۔ الجزائر کے دونوں شہریوں کو القاعدہ نے یمن میں اپنی صفوں میں شامل کیا تھا تاکہ وہ اپنے دشمن کے قلب پر حملہ کر سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ کا خیال یہ تھا کہ وہ خوف کی فضا پیدا کرتے ہوئے رسالت کی حرمت کا تحفظ کر سکتی ہے توکہنا پڑے گا کہ وہ اس میں ناکام ہوئی۔ اب ایسے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت میں تیزی آئے گی، ان حملوں کی وجہ سے یورپ کو سیاسی طور پر مسلمان آبادی کو دبانے کا جواز میسر آئے گا، مسلمان شہریوں پر دبائو رہے گا کہ وہ خود کو اچھے شہری ثابت کرنے کے لیے مغربی سیکولرازم کو اپنائیں جس کے لیے وہ تیار نہیں۔ یہ کثیر ثقافتی معاشرے اور اس میں پائی جانے والی آزادیِ اظہار کا بھی امتحان ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ خاموش رہنے کی بجائے مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان گفتگو ہو تا کہ وہ ہماری حساسیت کو جان سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں