''پیر صاحب نے اس ٹیلے کے نیچے ایک جن کو قید کر رکھا ہے ورنہ وہ باہرآکر تمام بستی کو کھا جاتا‘‘۔ سوئی ویہاڑ کے قریب ایک گائوں کی عورت نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کھیتوں کے درمیان گنبد نما بلند عمارت اوراس کے قریب ہی ایک چھوٹے سے مزار کے بارے میں بتایا۔ اُس کے نزدیک اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ گنبد 1800سال پہلے بدھ تہذیب سے تعلق رکھتا تھا جبکہ پیر صاحب حال ہی میں دفن ہوئے تھے۔ بہرحال دیومالائی کہانیاں اسی طرح جنم لیتی ہیں۔ اس علاقے کے کچھ بوڑھے افراد نے کچھ غیر ملکی سیاحوں کا ذکر کیا جوٹوٹ پھوٹ کے شکار ان گنبدوںکو دیکھنے آئے تھے۔ بہاولپور میں موجود تاریخی اہمیت کے حامل بہت سے مزارات یا ان کی باقیات کے ساتھ بھی ایسی ہی کہانیاں منسوب کی جاتی ہیں۔ اس گائوں، سوئی ویہاڑ سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جگہ ہے جہاں ہڑپہ تہذیب سے بھی قبل کے آثار پائے جاتے ہیں۔ محکمہ آثار ِقدیمہ ان مقامات سے یقینی طور پر آگاہ ہوگا لیکن وفاقی اور صوبائی محکمہ آثار قدیمہ کے درمیان ان مقامات کی ذمہ داری کا تعین کرنے پر ہونے والی چپقلش کی وجہ سے کوئی بھی ان کا خیال رکھنے کی زحمت نہیں کرتا؛ چنانچہ ان مقامات سے بہت سے افراد نوادرات نکالتے رہتے ہیں اور بعض اوقات وہ اُنہیں دیگر ممالک میں فروخت بھی کردیتے ہیں۔
ذرا تصورکریں کہ ان مقامات بشمول دراوڑ (Darawar) کے مشہور قلعے کو دیکھنے کے لیے کتنے سیاح آتے ہیں۔ اس قلعے کی تصاویر اکثر پوسٹرز پر شائع کی جاتی ہیں لیکن نواب آف بہاولپور کے خاندان کی کم نگاہی کی وجہ سے آج یہ تاریخی قلعہ خستہ حالی کا شکار ہے۔ ماضی کی پرنسلی سٹیٹ (Princely state) بہاولپور قدیم قلعوں اور محلات کے درمیان پھیلی ہوئی تھی اور ان مقامات کی حفاظت تاریخی ورثہ سمجھ کر کی جانی چاہیے تھی، لیکن اس کے لیے صرف نواب صاحب کے خاندان کو ہی کیوں مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے، صوبائی حکومت بھی لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ء کے تحت ان مقامات کو اپنی تحویل میں لے کر انہیں ایکوزیشن ایکٹ 1975ء کے تحت قومی یادگاریں قراردے سکتی تھی۔
شاید اس علاقے کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔ میں مختلف حکومتوں کی طرف سے جنوبی پنجاب کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا حوالہ دے رہی ہوں۔ اس علاقے کو ووٹ اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے بعد نظر انداز کردیا جاتا ہے، اس لیے یہاں وسطی اور شمالی پنجاب جیسی ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ چنانچہ اس علاقے کے تاریخی مقامات بھی اسی تناسب سے کم اہمیت کے حامل ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ لاہور میں صوبائی حکومت نے تاریخی مقامات کی حفاظت کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی لیکن جنوبی علاقوں میں ایسی کوئی کاوش دکھائی نہیں دیتی۔ اس رویے کے نتیجے میں جنوبی پنجاب میں عمومی طور پر بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بڑے صوبے کا حصہ تو ہیں لیکن اس کی تمام تر طاقت اور اختیارات کا ارتکاز لاہور میں ہے۔
اس دلیل کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کی حکمران اشرافیہ بھی ریاست کی طرف سے روارکھی جانے والی ان زیادتیوں میں برابر کی شریک ہے۔ پی پی پی کی سابق حکومت کے دور میں اس علاقے کے سب سے بڑ ے شہر ملتان کو توجہ نصیب ہوئی اور یہاں ترقیاتی کام ہوتے دکھائی دیے۔ اب وفاقی حکومت ان ترقیاتی کاموں کو کچھ آگے بڑھانا چاہتی ہے لیکن اُن علاقوں میں جنہیں اندرونی سندھ کی طرح ریاست نے پراکسی گروہوں کے ذریعے کنٹرول کیا اور مسلسل نظر انداز کیے رکھا، کیے جانے والے کام ہنگامی اور وقتی اقدامات کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ قارئین اسے کوئی ذاتی احساس سمجھیں کیونکہ میرا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے، لیکن ایسا نہیں۔ میں نے یہ بات اس وقت کی جب میں نے آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرین ِ معاشیات عدیل ملک اور رنچن علی مرزا پر مشتمل ٹیم کی جنوبی پنجاب کے دو شہروں ملتان اور بہاولپور کے حوالے سے تیارکردہ ایک فکر انگیز رپورٹ دیکھ لی ۔ اگرچہ یہ تحقیقی رپورٹ اُس مواد کی بنیاد پر تیار کی گئی جو مزارات اور اُس علاقے میں موجود شرح ِخواندگی کو فوکس کرتا ہے، لیکن یہ مضمون نوآبادیاتی طاقتوں اور بعد میں ریاست کی طرف سے اس علاقے کا نظم و نسق چلانے کے لیے بنائے گئے شخصیت پرستی پر مبنی روایتی نظام کو بھی زیر ِ بحث لاتا ہے۔ یہ مطالعہ ملتان اور بہاولپور کے کچھ مخصوص مزارات کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے ظاہر کرتا ہے کہ اس علاقے میں کس طرح پیر اور زمیندار گھرانوں نے زمین، مذہب اور سیاست کے ادغام سے وجود میں آنے والی اجارہ داری کے ذریعے عوام کو تعلیم تک جیسی سہولیات سے محروم رکھا۔
اس مطالعہ کے مطابق جہاں تک مزارات کی تعداد کا تعلق ہے، اس میں شمالی، وسطی اور جنوبی پنجاب میں کوئی فرق نہیں۔ درحقیقت ان کا سب سے بڑا ارتکاز لاہور میں ہے۔ جنوب اور جنوب مغربی پنجاب میں مزارات سے وابستہ پیر گھرانے روایتی طور پر سیاست سے بھی وابستہ ہیں۔ مصنفین نے جنوبی پنجاب کی جن 115 تحصیلوں کا مطالعہ کیا اُن میں سے 64 مزارات کا سیاست سے براہ ِ راست تعلق تھا۔ یہ تعلق صوفی تعلیمات کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ مزارات کی طاقت کو پہلے مغلوںاور برطانوی راج اور پھر ریاست ِ پاکستان کی طرف سے ایک ادارے کی طرح استعمال کرنے پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح مذہبی شخصیات کا نام استعمال کرتے ہوئے معاشرے پر اختیار حاصل کیا گیا۔
اس طاقت کے سٹرکچر کا دارومدار زمیندار پیرکی ریاست اور معاشرے کے ساتھ ڈیل کرنے کی صلاحیت پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اختیار کی تقسیم میں ابہام رہے گا۔ برطانوی افسران نے اس طاقت کا ادراک کرتے ہوئے پیروں کو زرعی طبقے میں شمار کیا اور اُن میں 1900 کے لینڈ ایکٹ کے تحت زمینیں بھی تقسیم کی گئیں۔ اس کے پیچھے کارفرما تصور یہ تھا کہ مقامی طاقت کے مرکز کو اپنے بس میں کیا جائے۔ جنوبی پنجاب سماجی تصورات اور ریاست کے عوام کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بہت حد تک سندھ سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس موضوع کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ شمالی اور وسطی پنجاب کے مزارات براہ ِراست سیاست پر اثر انداز نہیں ہوئے لیکن ان کی وجہ سے دیگر سیاسی کھلاڑیوں کو تقویت ضرور ملی۔ اس حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے گرد ونواح میں واقع مزارات کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس بحث سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ مزارات کا اُن علاقوں میں تعلیم کے فروغ پر منفی اثر ہوا جن کا فاصلہ دریا سے دس کلومیٹر یا اس سے کم تھا؛ تاہم ان علاقوں(دریائوں کے قریب والے) کی تعلیمی پسماندگی کی وجہ صرف مزارات نہیں بلکہ ان کی وجہ سے وجود میں آنے والا سیاست اور مذہب کا ادغام تھا جس کی وجہ سے ریاست دور افتادہ علاقوں کو آسیب زدہ سمجھ کران سے کنارہ کشی اختیار کرتی رہی۔ جنوبی پنجاب میں دریائوں کے نزدیک والے علاقے غربت اور نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے جرائم اور انتہا پسندی کے گڑھ بن چکے ہیں۔ ان علاقوں کو ترقی دینے میں ریاست بھی اتنی لاپروا ہے جتنی یہاں راج کرنے والے پیرنما زمیندار۔ جنوبی پنجاب پر مطالعہ کے دوران مجھے پتا چلا کہ یہاں بھی غیر آباد سکولوں میں اُسی طرح مقامی زمیندار جانور باندھتے ہیں جیسے سندھ میں ۔ یہاں تعلیم دینے والے اساتذہ پر مقامی زمینداروں اور انتہا پسندگروہوں کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔ بالآخر نوآبادیاتی نظام کے اختتام کے بعد شمالی اور وسطی پنجاب کے حالات توجہ ملنے والی کی بدولت تبدیل ہوتے گئے۔ حکومت کو احساس ہونا چاہیے کہ ملتان میں میٹرو بس چلا نا یا بہاولپور میں سولر پلانٹ لگانا اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس علاقے کو توجہ کی ضرورت ہے، توجہ کے بغیر یہاں رہنے والے اُس عورت کی طرح یہی سمجھتے رہیں گے کہ پیروں نے جنات کو قابوکیا ہوا ہے ورنہ وہ بستیوںکوکھا جاتے۔