نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کے درمیان ہونے والی گفتگو کی معطلی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اب اسلام آباد کو دہلی میں ایک مختلف قسم کی حکومت سے واسطہ ہے جو بے لچک، ہٹ دھرم اور خودسر ہے۔ اور تو اور خود بھارتی بھی اپنی حکومت کے اس انداز پر حیرت زدہ ہیں کہ وزیر ِاعظم اور ان کے قریبی حلقوں میں ہونے والے فیصلوں نے ادارو ں کے کردار کو کس قدرغیر اہم کردیا ہے۔ اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کا زعم اور پاکستان کی بڑھتی مشکلات کا اندازہ حالات کو مزید پیچیدہ کرتا ہے۔ امریکی کانگرس کی طرف سے کولیشن فنڈ کی معطلی اور افغانستان میں دگرگوں حالات پاکستان کے لیے بہرحال لمحہ فکریہ ہیں۔ لیکن ان حالات میںبات ویسے ہی ہوگئی ہے جیسے اجڑتی ہوئی دہلی کے آخری تاجدار، بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
پاکستان کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کے مابین ہونے والی بات چیت کے حوالے سے تحفظات یہ تھے کہ اس میں کشمیر کا ایجنڈا شامل نہ تھا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ دہلی نے آخر کار اسلام آباد کو اس اہم مسئلے پر سمجھوتہ کرنے پر راضی کرلیا ہے ۔ چنانچہ پاکستان کو اُٹھایا ہوا پائو ں واپس رکھنا پڑا۔ چلیں یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرتاج عزیز نے اس سال جولائی میں اوفا میں ہونے والی میٹنگ میں کشمیر کا ذکر کیوں نہ کیا؟ اگرچہ اوفا اعلامیے میں '' تمام حل طلب مسائل‘‘ کو زیر ِبحث لانے کا ذکر موجود ہے، لیکن اُس میں زیادہ زور دہشت گردی، خاص طور پر ممبئی حملوں پر دیا گیا تھا۔ کیا پاکستان کو یہ ڈر تھا کہ ہندوستان دہشت گردی کا مسئلہ حل کیے بغیر کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کرنے پر راضی نہ ہوتا، لیکن اگر خیالات میں اتنا تضاد تھا تو مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کسی مشترکہ اعلامیے کے بغیر اوفا سے واپس آ جاتا۔ پتا نہیں مشترکہ اعلامیے کا ہمیں خبط ساکیوں ہے۔ اسی قسم کی صورت ِحال ''بااختیار ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔
شاید یہ ہمارے دفتر خارجہ کی افسر شاہی کی کوتاہی تھی، لیکن دیکھنے میں تو یہ آیا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے سفارت کار کسی بھی دستاویز پر دستخط کرنے سے پہلے نوک پلک درست کرتے ہیں۔ موجودہ فارن سیکرٹری ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں جو ایسی غلطی نہیں کر سکتے۔ یا جیسا کہ بہت سوں نے اوفا کے بعد کہا، ہوسکتا ہے کہ یہ وزیر ِاعظم کی غلطی ہو۔ بہت سے مبصرین نے فوراً ہی کہہ ڈالا کہ نواز شریف بھارت دشمنی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متفق نہیں۔ یہ ان کا علانیہ ایجنڈا ہے کہ وہ اپنے دشمن ہمسائے کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانا چاہتے ہیں؛ چنانچہ اُنہوں نے نتائج پر غور کیے بغیراس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاکہ کسی طرح دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل جائے۔
لیکن کیا اوفا میں نواز شریف نے واقعی فوجی قیادت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی؟ یہ بات دل کو نہیں لگتی کیونکہ ایک ایسا وزیر اعظم جو داخلی طور پر ایک کڑے امتحان سے گزر کر بمشکل سنبھل پایا ہو، اتنے پراعتماد طریقے سے خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ نواز شریف کی ذہانت پر جو بھی رائے دی جائے، وہ بہرحال اتنے بڑے خطروں کو دعوت نہیں دے سکتے جو خود کشی کے مترادف ہوں۔ سچ یہ ہے کہ وہ روس میں پاکستانی ٹیم کے قائد تھے، لہٰذا ذمہ داری اُن کے کندھوں پر ہی عائد ہوتی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اوفا سے واپسی کے بعد کے حالات کارگل اور تب کے میاں نواز شریف کے امریکی دورے کی یاد دلاتے ہیں۔
اوفا کا از سر ِنو جائزہ لیتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ صورت ِحال ہم نے پہلے بھی کہیں دیکھی تھی۔ اوفا میٹنگ کے بعد نواز شریف کو ویسی ہی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جیسے کارگل کے بعد۔ ان دونوں واقعات نے اُنہیں سیاسی طور پر زک پہنچائی۔ 1999ء میں اُنہیں جنرل مشرف نے دعائوں کے ساتھ واشنگٹن روانہ کیا تھا۔ ان کے ہمراہ ایک سیکرٹری خارجہ بھی تھے جو راولپنڈی کے خاص آدمی تھے؛ تاہم جب نواز شریف نے فوج واپس بلانے کا معاہدہ تسلیم کرلیا تو اُن پر الزامات کی بوچھاڑ ہوگئی۔ آج بھی ملک کے مخصوص حلقوں میں مقبول عام تصور یہ ہے کہ ہم کارگل مہم میں کامیاب ہو چلے تھے، اگر نواز شریف دستوں کی واپسی کا معاہدہ نہ کرتے۔ حیرت ہے کہ کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اُس وقت آرمی چیف، جنہوں نے کارگل پر چڑھائی کرتے وقت حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا، نواز شریف کی طرف سے کیے گئے معاہدے پر متفق ہوتے ہوئے واپسی پر اتنے آرام سے آمادہ کیوں ہوگئے؟ اس سے بھی اہم یہ کہ کارگل ایشو نے مشرف کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ پاکستان میں حکومتی سربراہ کی بدعنوانی اور نااہلی تو برداشت کر لی جاتی ہے لیکن جب اُس پر قومی سلامتی کو دائو پر لگانے کا الزام چپکا دیا جائے تو پھر اُس کی حکومت کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ اب بھی نظر آتا ہے کہ اوفا اعلامیے اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی گفتگو کی معطلی سے نریندر مودی کے مقابلے میں نواز شریف کو داخلی طور پر زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ٹی وی مبصرین اور دیگر صحافیوں کی طرف سے اجاگرکردہ تصویر کے مطابق وزیر ِاعظم نے اوفا کی غلطی کے بعد این ایس اے مذاکرات کے بارے میں آخرکار درست فیصلہ کیا، لیکن یہ فیصلہ آرمی چیف سے بریفنگ ملنے کے بعد کیا گیا۔ ایسی تشریح سے حکومت کو سیاسی طور پر مزید زک پہنچتی ہے۔
دونوں طرف سے جلد پیش قدمی کی ایک وجہ پاک بھارت کشیدگی پر امریکی تشویش بھی تھی۔ لگتا نہیںکہ پاکستان یا بھارت ایک مشترکہ اعلامیے کے لیے تیار تھے۔ ہندوستان میں بہت سے ذمہ دار حکومتی لوگ اوفا پلان سے واقف نہ تھے؛ چنانچہ اسلام آباد کی طرف سے دہشت گردی کے ایشو پر بات کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنا دہلی کے لئے ایک خوش آئند لیکن حیرت انگیز پیش رفت تھی۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان بعد میں اپنے دستخط شدہ معاہدے کی پاسداری نہ کرسکا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے بچائو کے لیے لڑتی ہوئی حکومت کشمیر کے مسئلے کا کیسے سودا کرلیتی؟ یہ اور بات ہے کہ کشمیر ایسا مسئلہ ہے جو ایک طویل تر مدت میں تو شاید حل ہوجائے لیکن مختصر یا درمیانی مدت میں نہیں ہوگا۔ جہاں تک امن کی بات کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ طرفین نے خود بات چیت کرنے کی قیمت بہت بڑھا لی ہے۔ کوشش یہی رہتی ہے کہ کشمکش کا دائرہ بڑھا کر دوسرے کو مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ خطے کے لیے جنگ کتنی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو ایسے کئی دانشور ملتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پراکسی رکھنے کی قیمت صرف بھارت کو چکانی پڑے گی۔ لیکن اُن لوگوں کو یا گروہوں کو جو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیے جاچکے ہوں، کے ساتھ اپنے روابط کے اشتہار لگانا نقصان دہ عمل ہے۔ اس کام کی قیمت ہوتی ہے۔ یقیناًکچھ جنگیں میدان میں لڑے جانے سے پہلے ہی مہنگی ثابت ہوتی ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے امن مذاکرا ت کے مسئلے پر واپس آتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے، دونوں ممالک کو گمان ہے کہ امن کا فائدہ صرف دوسرے فریق کو ہوگا۔ اسی لیے موجودہ صورت ِحال میں دونوں فریق تنائو بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایٹمی چھتری کو آزمانے کی بات بھی سوچی جائے۔ یہ رویے درست نہیں، لیکن بات یہ ہے کہ مذاکرات کا فائدہ صرف اُس صورت میں ہوگا جب بھارت اور پاکستان ٹھنڈے دل سے اپنے رویوں پر غور کرکے، امن پر یقین رکھتے ہوئے میز پربیٹھیں گے۔ اکٹھے بیٹھنے کا اُسی وقت فائدہ ہوتا ہے جب آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہو۔