پاک روس تعلقات: چند معروضات

روس اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ دونوں ریاستوں نے دوطرفہ تعلقات میں مستعمل مخاصمت سے لبریز تاریخی عوامل کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ اب دونوں ملک ایک دوسرے سے روابط بڑھانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ لیکن طرفین، خاص طورپر پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر معاملے کو سکیورٹی کی عینک سے دیکھنے اور روایتی طرز ِعمل اختیار کرنے کی روش ترک کرکے متحرک اور جاندار رویہ اپناتے ہوئے تعلقات کی بحالی کی طرف مثبت قدم اٹھائے۔ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوطرفہ تعلقات میں بے غرض ہوکر صرف دوسروں کا مفاد ہی دیکھا جائے، دراصل حکومتوں کے مابین تعلقات ایک محدود فریم ورک میں ہوتے ہیںجنہیں پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آ ج کے دورکا روس پرانے اور نئے، دونوں پہلو لیے ہوئے ہے۔ یہ اپنی ثقافت، تاریخ اور سماجی اور سیاسی روایات کے حوالے سے پرانا، لیکن سیاسی معیشت اور طرز ِزندگی کے اعتبار سے نیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں روسی ساخت کی LADA کاروں کی جگہ جرمنی، فرانس ، برطانیہ اور جاپان کی بنی ہوئی کاریں سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے زندگی کے بدلتے ہوئے سٹائل اور عوام کی بڑھتی ہوئی توقعات کا اظہار ہوتا ہے۔ سیاسی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کو معاشی اور دیگر وجوہ کی بنیاد پر عالمی تعلقات استوارکرنے اور ایک مہیب عسکری طاقت کی پوزیشن قائم رکھنے کے درمیان بہت احتیاط مگر پر وقار طریقے سے توازن قائم کرنا ہے۔ پرانے اور نئے روس کو مل کر قدم اٹھانا ہوگا۔ چنانچہ اُس ماسکوکے لیے جو یوریشیا اور دنیا میں سیاسی اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے، بہتر ہو گا کہ وہ نئے دوست بنائے اور اپنی سرحدیں اُن ممالک کے لیے کھول دے جنہیں سوویت یونین کے دور میں دشمن سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اپنے حالیہ دورہ ماسکو کے دوران جن روسی مورخیں اور سائنسدانوںسے ملاقات کی، وہ اسلام آباد کے ساتھ بات کرنے کے حق میں تھے۔ افغانستان میں استحکام سے لے کر وسطی ایشیا تک روابط کا پھیلائو اہم وجوہ ہیں جو ان دونوں ریاستوں کو قریب لا سکتی ہیں۔ جب گزشتہ تین دہائیوں سے جارحانہ رویہ دکھانے اور کسی نہ کسی بہانے سے جنگ جاری رکھنے کے بعد امریکہ جنوبی ایشیا سے شرافت سے رخصت ہورہا ہے، ماسکو کے پاس پاکستان کے ساتھ روابط قائم کرنے کا موقع ہے۔ ان روابط کی جہت بالکل نئی ہوگی کیونکہ اب ماضی کی طرح کا ''پاکستان یا انڈیا؟‘‘ والا آپشن نہیں ہے۔ اب دونوں ریاستوں کے درمیان مختلف وجوہ کی بنیاد تعلقات قائم کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ این ایل جی پائپ لائن یا چند فوجی ہیلی کاپٹروں کی فروخت سے اس نئی پالیسی کا اظہارہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ انڈیا کی اسلحے کی مارکیٹ ماسکو کے لیے اہمیت کھو دے گی، آج بھی ہندوستان کے ستر فیصد اہم ہتھیار روسی ساخت کے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دیر تک یہی صورت ِحال درپیش رہے لیکن اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ بھارت مغربی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے کیونکہ ان کا معیار نسبتاً بہتر ہے۔ ہتھیاروںکی فراہمی کے تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت امریکہ اور اسرائیل سے دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے؛ تاہم آج کی دنیا میں اسلحے کا حصول تعلقات کے لیے بہت اہمیت نہیں رکھتا۔ آج کی دنیا میں روایتی اسلحے کا حصول سرد جنگ کے دور ، جب دنیا دوطاقتوں کے درمیان بٹی ہوئی تھی، کے نظریاتی تصادم سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ پاکستانی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اسلام آباد کو ماسکو کے ساتھ غیر روایتی انداز میں راوبط قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ روابط صرف ریاستی سطح تک محدود نہ ہوں اور ریاستی سطح کے تعلقات کے لیے بھی ایسی ہی کوشش کرنی چاہیے جیسی امریکہ کے لیے دیکھنے میں آئی تھی۔ مثال کے طور پر اسلام آبادمیں کچھ کی رائے یہ تھی کہ ایک تجربہ کار سفارت کار کو، جس کی مہارت روس میں بھی تسلیم کی جاتی ہو، ماسکو میں سفیر مقرر کرنے سے پاکستان کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دفتر ِخارجہ میں ایک طویل عرصہ گزارنا سفارت کاری میں مہارت کا معیار نہیں ہے۔ شاید ایک پُر معنی سیاسی تقرری، جیسی ہم واشنگٹن میں دیکھتے ہیں، زیادہ سود مند ثابت ہوتی۔ 
روس کے ساتھ روابط بڑھاتے ہوئے پاکستان کو تخیلات سے کام لینا پڑے گا۔ ہم اس کے ساتھ اس طرح مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ سکتے جیسے چین کے ساتھ ہیں چونکہ یہ تاریخی روابط ہیں جن پر ہمارا دار و مدار ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اُنہیں بھی سٹریٹیجک طور پر ہماری ضرورت ہوگی۔ ہماری طرف سے ان تعلقات میں بھی وسعت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، نہ ہی ہم اس پر قناعت کرکے بیٹھ سکتے ہیں کہ ماسکو کو ہماری ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اسلحے کی فیکٹریوں کو چالو حالت میں رکھ سکے۔ ہمیں خود کو روسی معاشرے سے متعارف کرانا پڑے گا اور اس کی کافی گنجائش موجود ہے۔ مجھے عام روسی شہری سے بات کرتے ہوئے یہ خوشگوار احساس ہو رہا تھا کہ پاکستان کانام سن کر اُن کے چہرے پرتنائو نہیں آتا تھا۔ شاید نئی نسل کو پہلی افغان جنگ کا علم بھی نہیں اور نہ ہی یہ ان کی یادداشت کا حصہ ہے۔ تاہم پاکستان میں کچھ لوگ اس بات پر فخر سے سینہ پھلا لیتے ہیں کہ ہم نے ایک سپر پاور کا شیرازہ بکھیرنے اور اسے شکست سے دوچار کرنے میں کردار ادا کیاتھا۔ 
روابط قائم کرنے کے لیے ایک تاریخی بنیاد بھی موجود ہے۔شاید یہ 1980ء کی دہائی سے پہلے کی بات ہے، جب پاکستانی معاشرے کے کچھ مخصوص حلقوں کے ماسکو کے ساتھ تعلقات تھے۔ کچھ سیاسی اور نظریاتی روابط بھی تھے، جن کا اظہار مختلف اندازمیں ہوتا تھا۔ شاید آپ کو پاکستان میں آج بھی ایسے افراد مل جائیں جنہوں نے ''پیپلز پبلشنگ ہائوس‘‘ کا شائع کردہ روسی ادب پڑھا تھا، اس لیے ادبی اور ثقافتی تعلقات کو ابھی سے شروع کردینا چاہیے۔ اسی طرح کیا ہماری حکومت ماسکو میں ایک ثقافتی مرکز قائم کرنے کی کوشش کرے گی؟ تاکہ اس کے ذریعے پاکستانی معاشرے کے رنگ اور نرم تصورات آگے بڑھائے جائیں۔ ا س پیش رفت کے لیے ہمارے دانشور، فنکار اور ادیب قابل ِقدر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم مشرق ِوسطیٰ اور اپنے نظریات سے آگے بڑھ کر سوچتے ہوئے دنیا کے ساتھ مل سکیں۔ ہم نے ہمیشہ کسی بھی ریاست کے ساتھ تعلقات کو دفاعی ضروریات یا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی کے حوالے سے دیکھا ہے۔ تھیوری کے اعتبار سے ایسی ریاستوں کو مفاد پرست کہا جاتا ہے۔ چونکہ ہم اس لقب کو ناپسند کرتے ہیں، اس لیے اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ دوطرفہ تعلقات کو ان معروضات سے آگے بڑھائے۔ ایک اور بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے، ماسکو کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہوگا کہ اس کے دہلی کے ساتھ تعلقات کیوں ہیں، اسے نظرانداز کرنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً دہلی، ماسکو پر دفاعی سا ز وسامان کا انحصار کم کر رہا ہے، لیکن وہ راتوں رات اس سے منہ نہیں موڑ سکتا اور نہ ہی ایسی کوئی بات دوٹوک انداز میں کہی جاسکتی ہے۔ یہ دونوں ممالک دیرینہ تعلقات رکھتے ہیں۔ پاکستان کووسیع تر پیرائے میں اپنے تعلقات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دہلی کے ماسکو سے تعلقات ہیں یا واشنگٹن سے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں