1971ء میں بنگالیوں کی ہلاکتوں کے الزام میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی پھانسی پر پاکستان کے دفتر خارجہ اور پارلیمنٹ کی طرف سے اٹھایا گیا شور مجھے 1994ء میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار کی یاد دلاتا ہے، مَیں بھی جس میں شریک تھی۔ اس کے کچھ اجلاسوں میں اُس وقت کے ایئرچیف نے بھی شرکت کی‘ اور ایک ماہر دفاعی تجزیہ کار کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بھارت کے ساتھ ہونے والی ممکنہ کشمکش میں ڈھاکہ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ غالباً یہ راولپنڈی کا سٹریٹیجک گہرائی کا منصوبہ تھا کہ اس نے ضرورت پڑنے پر بنگلہ دیش کی فضائیہ کو بھی اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرنے کا سوچ لیا۔ یہ خالدہ ضیا کی بی این پی کی دوسری مدت کی حکومت تھی‘ جب ڈھاکہ کے ساتھ ہمارے دفاعی تعلقات استوار ہونے لگے‘ اور اسلام آباد میں یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ملک کا دولخت ہو جانا ہنگامی نوعیت کا ایک غیر معمولی گھائو تھا‘ جسے گزرتا ہوا وقت اگر مکمل طور پر نہ مندمل کر سکا تو بھی بہتری کے کچھ امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ یہ غالباً وہ دن تھے‘ جب ملک میں دفاعی تجزیہ کاروں کی بھاری کھیپ کی مشروم گروتھ دیکھ کر میری طبیعت مکدر ہونا شروع ہو گئی تھی۔ خدا کی پناہ، تھوڑی سی ٹریننگ، شعلہ بیانی، حقائق سے گریز، بھاری بھرکم دعوے... لیجیے دفاعی تجزیہ کار تیار!
دفاعی تجزیہ کاری کا یہ سطحی لیول مان لیں‘ پھر بھی اس بیان پر عقل حیران تھی کیونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش نے 1971ء کا باب بند کرکے آگے بڑھنے کی کبھی کوشش نہیںکی تھی۔ پاکستان میں جو تاریخ ہمیں پڑھائی گئی تھی‘ وہ اس سانحے کے بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔ صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ اس کی وجہ نظام تعلیم میں ہندو عناصر کی سرایت تھی۔ چلیں ظلم و جبر کی کہانیوں کو ایک طرف رکھیں، ملک کے دونوں حصوں کے درمیان ہونے والی وسائل کی مبہم تقسیم پر بھی بات نہیں کی گئی۔ اس خاموشی کی وجہ سے 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں پیدا ہونے والی نسلوں کے ذہن سے سابق مشرقی پاکستان کی یاد محو ہو گئی۔
تاہم اس خاموشی کی وجہ شاید یہ تھی کہ ریاست کے پاس 1971ء کی وضاحت کے لیے کوئی بیانیہ نہیں تھا۔ اس بات کی وضاحت کیسے کی جاتی کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے (اُس وقت بنگالی آبادی کی نمائندگی زیادہ تھی) پاکستان کے تصور سے روگردانی کیوں کی؟ بے شک یہ ایک بہت بڑا گھائو تھا اور اس نے ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس کے بعد غیر پنجابی صوبوں سے ریاستی جبر کے خلاف اٹھنے والے ہر اختلاف کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی عینک سے دیکھا جانے لگا۔ کئی ایک حوالے سے بنگالیوں کی علیحدگی کا خمیازہ بلوچیوں اور سندھیوں کو بھگتنا پڑا۔ ملک کے دولخت ہونے کی ذمہ داری ادھر اُدھر ڈالی جانے لگی۔ مثال کے طور پر نیم پختہ ریاستی بیانیے میں اس کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سوال کسی نے نہ اٹھایا کہ بھٹو نہ تو صدر تھے اور نہ ہی کمانڈر انچیف تو پھر ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار کیونکر ٹھہرے؟
خوش قسمتی سے 2004-05ء میں ہمارے ہاتھ ایک معاون بیانیہ لگ گیا‘ جب بھارتی مصنفہ، شرمیلا بوس (Sharmila Bose) نے پاکستان کے دولخت ہونے کے موضوع پر قلم اٹھایا۔ اُس کی بحث کے دو پہلو تھے۔ پہلا یہ کہ پاک فوج پر آبرو ریزی اور نسل کُشی کے الزامات مبالغہ آرائی پر مبنی تھے۔ دوسرا یہ کہ وہاں مکتی باہنی نے پُرتشدد کارروائیاں کی تھیں، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ مکتی باہنی بنگالیوں کو بھی اتنا ہی ناپسند کرتی تھی‘ جتنا ریاست پاکستان کو۔ شرمیلا بوس کی کتاب 2011ء میں شائع ہوئی اور اسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس کتاب نے کچھ فوجی افسروں، جیسے بریگیڈیئر صدیق سالک کے بیانیے کو خاموش کرانے میں بھی مدد کی۔ صدیق سالک‘ جو 1985-88ء میں آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے اور 1988ء کے طیارہ حادثے میں جنر ل ضیا اور دیگر کے ساتھ جاں بحق ہو گئے تھے، نے اپنی کتاب Witness to Surrender میں نسلی تعصب اور اس کے نتائج پر بات کی ہے؛ تاہم شرمیلا بوس کی کتاب نے اس بیانیے پر پردہ ڈال دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک اور بھارتی مصنف‘ جو ایک نوجوان بہاری سکالر تھے‘ نے 1971ء کے واقعات جمع کرکے بتایا کہ کس طرح بنگالیوں کے ہاتھوں بہاریوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بننا پڑا تھا؛ تاہم بوس کی کتاب نے ریاست کو بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ زیادتی اور جبر کی کہانیوںکو بڑھا چڑھا کر بیا ن کیا گیا تھا۔ چونکہ دس لاکھ ہلاکتوں اور اتنی ہی خواتین کی آبرو ریز ی کے واقعات تعداد کے اعتبار سے ناممکن دکھائی دیتے تھے، اس لیے ایک مرتبہ پھر اس کی ذمہ داری بھارت کے کندھوں پر ڈال دی گئی۔
موجودہ دور میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی پھانسیوں پر حکومت پاکستان کی فکر مندی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بیانیے میں ایک واضح سمت اختیارکرنے سے قاصر ہے؛ تاہم بوس اور پھر نریندرمودی نے ریاست کا بوجھ بانٹ لیا۔ بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے چالیس سال پہلے پیش آنے والے واقعے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے پاکستان توڑنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ یہ اعتراف پاکستان کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔
ان پھانسیوںکی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اسلام آباد اور ڈھاکہ نے 1971ء کے سانحے کا باب بند نہیں ہونے دیا۔ پاکستانی حکومت نے 1974ء میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا‘ اور پھر شیخ مجیب نے لاہور میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میں شرکت بھی کی، تاہم جسمانی اور جذباتی صدموں کا مداوا نہ کیا گیا۔ اسلام آباد نے کبھی باضابطہ طور پر ڈھاکہ سے معذرت نہیں کی۔ جب مشرف 2002ء میں ڈھاکہ گئے تو اُنھوں نے 1971ء کے واقعات پر کسی قدر افسوس کا اظہارکیا تھا۔ اگر اسلام آباد دلیری اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کے اس تاریک باب پر بنگالیوں اور بہاریوں سے معافی مانگ لیتا تو اچھا تھا۔ بہاری بھائیوں نے نہ صرف جنگ کا جبر برداشت کیا بلکہ اُنہیں بعد میں بھی مصائب کا سامنا رہا کیونکہ پاکستان سمیت کسی نے اُن کی شہریت کی ذمہ داری نہ اٹھائی۔ اُن میں سے بہت سوں نے پاکستان کی خاطر جان قربان کی تھی۔
اب ڈھاکہ حکومت تاریخ کے اُس باب کو کھولنے جا رہی ہے‘ جو اس کے وجود میں آنے کا باعث بنا تھا۔ اپنی مشترکہ تاریخ کے سیاہ باب سے انکار کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے موقف کو یکسر جھٹلانے کی بجائے بہتر ہے کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے زخم بھرنے کی کوشش کریں۔ اس تلخ باب کو اب سلجھے ہوئے طریقے سے بند کرنا بہتر ہو گا۔ ریاست کی طرف سے انکار بذات خود زخم ہرے کر دیتا ہے۔ اگر پاکستان معذرت کرتا ہے تو اس سے اس کی کمزوری نہیں، بڑاپن ظاہر ہو گا؛ تاہم ان زخموں کو مندمل ہونے کی اجازت نہ دینا قوم کے لیے نفسیاتی اور سیاسی طور پر ایک ناسور بنا رہے گا۔