لبنان کے کچھ حقائق

اگر بیروت میں کسی انفراسٹرکچر کے بارے میں پوچھیں کہ کس نے تعمیر کیا تو جواب ملے گا۔۔۔''رفیق الحریری‘‘۔ رفیق الحریری لبنان کے دومرتبہ منتخب ہونے والے وزیر ِاعظم تھے جنہیں 2006ء میں قتل کردیا گیا۔ یہاں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ الحریری کے ہاتھوں کا لمس جادوبھرا ہوگا، وہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتے ، سونے کی طرح چمکنے لگتی۔ ائیرپورٹ، سڑکیں، کنکریٹ کی عمارتیں، سب کی سب سابق وزیر ِاعظم کے نام سے منسوب ہیں۔ درحقیقت عام لبنانی شہری اُنہیں انفراسٹرکچر کو ترقی دینے والے رہنما کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ لبنان کئی عشروںسے خانہ جنگی کی لپیٹ میں رہا ہے، لیکن اس کی تعمیرات کی وجہ سے میں نے اپنے بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ یہ مشرق ِ وسطیٰ کا پیرس ہے۔ شاید یہ خطے کا سب سے جدید اور لبرل مقام تھا۔ تاہم ستر کی دہائی میں ہونے والی خانہ جنگی نے اسے بدلنا شروع کردیا۔ اگرچہ آج یہ ملک نسلی بنیادوں پر بٹ چکا ہے لیکن اس کی فضائوں میںجنونیت کی بجائے معقولیت گھلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ 
رفیق الحریری کو امن کی ثالثی کرنے والے رہنما کے طور پربھی یاد رکھا جاتا ہے۔ اُنھوں نے نوّے کی دہائی کے اختتام پر سولا سالہ خانہ جنگی ختم کرنے کے بعد امن قائم کیا۔ اس کے بعد وہ 1992 ء میں پہلی مرتبہ بطور وزیر ِا عظم منتخب ہوئے تو انھوں نے اس جنگ زدہ ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے پالیسی سازی کرنا شروع کی۔ جب آپ اس کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہیں تو آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ جنگ سے تباہ شدہ اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس میں انفراسٹرکچر کو بہتر بناتے ہوئے شہریوں کا مورال بلند کیا جائے۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ الحریری کم از کم دو مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ، ان میں سے ایک پانی ہے اور دوسرا بجلی۔یقینا یہ اہم مسائل ہیں کیونکہ دیگر سہولیات ایک طرف، شہریوں کو مناسب مقدارمیں پانی دستیاب ہونا چاہیے۔ تاہم اس ضمن میں ناکامی صرف مقتول وزیر ِاعظم کے حصے میں ہی نہیں آئی بلکہ یہ دومسائل جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ان ریاستوں میں بھی انفراسٹرکچر کی تعمیر دکھائی دیتی ہے لیکن پانی اور توانائی کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ سری لنکا اور پاکستان کا حال سب پر عیاں ہے ۔ ان ریاستوں میں ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری ہورہی ہے جو عام آدمی کی نظروںکو بھائیں۔
بیروت کے عام شہری کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پانی کی فراہمی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر دکان دار تک، سب پانی اور بجلی کی کمی کی شکایت کرتے سنائی دیں گے، لیکن جب وہ شاندار تعمیرات کو دیکھتے ہوئے الحریری کی تعریف کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ان کے سابق وزیر ِاعظم مسائل کا حل نہیں، مسائل کا حصہ تھے ۔ رفیق الحریری کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ ان کے درمیان ذاتی تعلقات تھے جن کا الحریری کو مالی طور پر بہت فائدہ ہوا۔ درحقیقت ان کی وجہ سے ہی لبنان کے انفراسٹرکچر میں سعودی سرمایہ کاری ہوئی۔ ان منصوبوں کو امن کی مکمل بحالی تک ملتوی کیا جانا چاہیے تھا ،لیکن شاید ان کی وجہ سے عالمی روابط رکھنے والی نئی اشرافیہ کو سرپرستی کے لیے سامنے لانا مقصود تھا۔ اُس وقت ورلڈ بینک نے بھی رفیق الحریری کو کھل کر مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ تعمیرات میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کریں۔ جنگ کے بعد ایسی ترقی ایک پالیسی کے تحت روارکھی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک سیاست دان کم ، ایک مافیا کا زیادہ حصہ تھے جس کے ہاتھ ملک کی زمام ِ اختیار آگئی تھی۔ لبنان میں سراٹھانے والے موجودہ'' کوڑے کا بحران‘‘ اسی مافیا کی یاددلاتا ہے کہ نظام کو دراصل کس طرح کی بدعنوانی نے کھوکھلا کررکھا ہے۔ اس وقت شہروںسے کوڑا کرکٹ اٹھانے والی کمپنی کام نہیں کررہی کیونکہ اس کے پیچھے کام کرنے والے مافیا نے اپنا حصہ اتنا بڑھا دیا تھا کہ یہ شہریوں پر بہت بڑا بوجھ بن گیا۔ وزیر 
ِاعظم بھی اس کمپنی '' Solidere ‘‘میں شراکت دار تھے جس نے بیروت میں تعمیراتی کام کیے۔ وہ اس کے ذریعے اپنے کلائنٹس اور سیاسی پارٹنرز کو انعام دیتے تھے۔ اگرچہ بیروت کوئی بڑ ا شہرنہیں لیکن یہ خوبصورت تعمیراتی نمونے پیش کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک گلے سڑے نظام کی بھی یاد دلاتا ہے۔ سیاسی طور پر اس نے سعودی عرب اور شام کے نظریات کی ترویج کی اور میڈیا کا گلا گھونٹا۔ حکومت نے 1994ء میں عوامی مظاہروں پر پابندی لگاتے ہوئے اپوزیشن کو دبایا۔ 
اس مضمون کا مقصد لبنان کے سابق وزیر ِاعظم کو تنقید کا نشانہ بنانانہیں بلکہ قارئین کو یہ احساس دلانا ہے کہ اس طرح کی تعمیرات اور معاشی ترقی کی جھلک بہت سے خطوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس نظام کا مقصد نفع کمانا اور اسٹیک ہولڈر کی نئی کلاس کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ لبنان میں عارضی خوشی کے لیے مستقبل کی خوشی کو قربان کردیا گیا ہے ، اور یہ صورت ِحال ہمارے لیے بھی نئی نہیں۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی ترقی تمام خلیجی ممالک میں دکھائی دیتی ہے۔ سعودی عرب، قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کا تعلق عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے جڑچکا ہے۔ اس نظام کا مقصدمقامی اشرافیہ کو توانا کرنا ہوتا ہے،نہ کہ مجموعی معیشت کو ترقی دینا۔''سکول آف افریقین اینڈ اورینٹل سٹڈیز ‘‘ کے ایک سینئر پروفیسر، ایڈم 
ہانی(Adam Hanieh) اپنی کتاب''Capitalism and Class in the Gulf Arab States‘‘میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جو عالمی معیشت ستر کی دہائی میں خلیجی ممالک میں شروع ہوئی،ہوسکتا ہے کہ لبنان اس کا آگے چل کر حصہ بن جائے۔ اس ترقی کی سیاسی معیشت کا تعلق سرمایہ دار طبقے کی تیاری سے ہوتا ہے جوخطے کو عالمی مارکیٹ سے مربوط کرسکے۔ چنانچہ خلیج میں تجارت میں شریک خاندانوں کو سیاسی بنیادوں پر تقویت پاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس عمل میں ریاست کے وسائل کو اس کی معاونت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ سیاسی مسائل کے باوجود، ریاست کے وسائل کے بل بوتے پر، عالمی معیشت کے ساتھ ربط کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اس عمل کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں خطے میں واضح طور پر یہ ربط تیزی سے اپنے مراحل طے کرتا دکھائی دے گا۔ 
معیشت کے بنیادی ڈھانچوں میں سے ایک یہ ہے کہ عوام کے بنیادی اور حقیقی مسائل کو کبھی حل نہ کریں۔ چنانچہ آپ کو خلیج کے چکاچوند انفراسٹرکچر کے پیچھے جبر کا شکار عوام بھی دکھائی دیںگے۔ اس کاکلیہ یہ ہے کہ اُن کی زبان کسی نہ کسی طریقے سے بند رکھیں۔ چنانچہ میڈیا پر پابندی، اپوزیشن کا گلا دبانااور اختلافی آوازوںکو خاموش کرنا اس نظام کا حصہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج انفراسٹرکچر کی تعمیر کو ہی ترقی سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں