‌طاقت حق نہیں

گزشتہ چودہ صدیوں سے ہم ہر سال ماہِ محرم الحرام میں نواسۂ رسولﷺ‘ جگر گوشۂ بتولؓ اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فرزندِ ارجمند حضرت امام حسینؓ کو یاد کرتے ہیں۔ امام عالی مقام کو ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے یاد کرتا ہے۔ کوئی ذکر کی مجالس میں شہیدِ کربلا کا تذکرہ سنا کر‘ کوئی بادیدہ تر اس تذکرے کو سن کر‘ کوئی ننگے پاؤں سینہ کوبی کرکے اور کوئی اس عظیم قربانی کے بارے میں قلم و قرطاس کے ذریعے فلسفۂ شہادتِ امام حسینؓ بیان کر کے اس یاد کا حق ادا کرتا ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے میدانِ کربلا میں بھوکے پیاسے رہ کر اپنی اور اپنے خاندان کے دیگر کئی چھوٹے بڑے افراد کی گردنیں کیوں کٹوائیں‘ اپنے جاں نثاروں کی قربانی کیوں دی؟ ان تمام نفوسِ قدسیہ کی کل تعداد صرف بہتر تھی۔ ایک طرف دودھ پیتے بچے سے لے کر بڑوں تک مرد وں کی کل تعداد 72 تھی اور دوسری طرف یزیدی فوج کی تعداد 30ہزار تھی۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی یہ یزیدی فوج نہ خدا کی کوئی بات سننے اور نہ ہی جنابِ مصطفیﷺ کے کسی ارشاد کو ماننے پر تیار تھی۔ ایسے مواقع پر بڑے بڑے جرنیل ہتھیار ڈال دیتے ہیں مگر نواسۂ رسول اصول کی غیرت کے بارے میں کسی سودا بازی پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے دل و جان سے عزیمت کے راستے کو فوقیت دی۔ وہ کیا اصول تھا جس کی خاطر جناب امام عالی مقامؓ نے میدانِ کربلا میں اتنی عظیم قربانی دی تھی؟ یزید کسی بھی اعتبار سے خلافت کا مستحق نہ تھا۔ وہ ظالم تھا اور خانوادۂ رسول سے بزورِ شمشیر اپنی خلافت پر مہر تصدیق ثبت کروانا چاہتا تھا۔ یزیدی فاشزم حضرت امام حسینؓ کو اپنے سامنے سرنگوں کرنا چاہتا تھا۔ جابر و ظالم حاکم چاہتا تھا کہ خونِ پیغمبر سے روشن خانوادۂ رسول کے چراغوں کو میدانِ کربلا میں گُل کر دیا جائے مگر یزید کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس شمع کو بجھانے کیلئے اس نے میدانِ کربلا میں ٹڈی دَل لشکر بھیجا تھا‘ وہ شمع مدھم پڑنے کے بجائے ہرگزرنے والے دن کے ساتھ روشن تر ہو رہی ہے اور ایک دنیا کو منور کر رہی ہے۔
حضرت امام حسینؓ ہر اس شخص کی آنکھ کا تارا ہیں جو ظالم سے نفرت کرتا اور مظلوم سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اسی لیے جوش ملیح آبادی نے نہایت پُرجوش انداز میں کہا تھا:
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ
چرخ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؓ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
حسنین کریمینؓ کے نانا کی حدیث مبارکہ ہے کہ بہترین جہاد ظالم و جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔ ازل سے تا امروز ظلم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ کہیں زیادہ کہیں کم۔ کہیں حکومتیں عوام پر ظلم ڈھا رہی ہیں‘ کہیں طاقتوروں نے کمزوروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کہیں اثر و رسوخ رکھنے والوں کو من چاہا ''انصاف‘‘ ملتا ہے اور کہیں بے وسیلہ لوگوں کی کمر پر ناانصافی کے کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ کہیں طاقتور اپنے سے کمزور ملکوں پر قیامتیں ڈھاتے ہیں۔ کہیں طاقت کے نشے میں چور ممالک فیلِ بے زنجیر کی طرح ہلاکت خیز اسلحے سے محروم ملکوں پر حملے کرتے ہیں۔
ظالم اور مظلوم کی مثالوں سے یہ دنیا بھری پڑی ہے۔ غاصب اسرائیل نہتے اور کمزور فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے اور اُن پر توپوں‘ ٹینکوں اور بمبار طیاروں سے حملے کرتا ہے۔ مگر فلسطینیوں کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ اسوۂ حسینی کے پیروکار ہیں۔ وہ غاصب ریاست کے آگے سرنڈر کرنے کے بجائے سینہ سپر ہونے کو اپنا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔ کربلا کی پیروی میں فلسطینی مرد‘ عورتیں‘ بچے اور بوڑھے‘ ہر کوئی نہایت خوشی دلی اور جرأت مندی کے ساتھ غلامی سے نجات کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔
پیغامِ حسینؓ یہ ہے کہ طاقت حق نہیں‘ حق طاقت ہے۔ یزید نے طاقت کے زعم میں حق اور سچ کے نام لیواؤں پر یہ سوچ کر حملہ کروایا تھا کہ نعوذ باللہ وہ ان کا نام و نشان مٹا دے گا۔ وہ سمجھتا تھا کہ خانوادۂ ہاشمیہ کا یہ عظیم چراغ بجھا کر وہ دنیا میں اپنا ڈنکا بجائے گا۔ لوگ اس کی مدح سرائی کریں گے‘ اس کے گن گائیں گے اور اسی کے ساتھ اپنی امیدیں وابستہ کریں گے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ خانوادۂ رسول کا یہ جری چشم و چراغ پیغامِ مصطفیﷺ کی سر بلندی کے لیے جان تو قربان کر سکتا تھا مگر میدانِ جنگ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔
اس زمانے کے مشہور شاعر فرزدق نے قافلۂ حسین کو باور کرایا تھا کہ اہلِ کوفہ کے دل تو حسینؓ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان کشت و خون خاندانِ نبوت کا شیوہ نہ تھا۔ بعض لوگ نظامِ خلافت کے بارے میں اپنا مختلف نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ اگر ان کی بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے لے کر امیر معاویہؓ تک پچاس برس کے دوران خانوادۂ رسولﷺ کے کسی فرد نے جنگ و جدل کا علم بلند نہ کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر امام عالی مقامؓ نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟ کیا حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی تخت و تاج یا ذاتی استحقاق منوانے کے لیے تھی؟
نہیں‘ ایسا ہرگز نہ تھا۔ خلافت کی گاڑی 40 برس تک ایک لائن پر چل رہی تھی مگر امیر معاویہؓ کے بعد یزید کے تخت نشین ہونے پر یہ گاڑی اس پٹڑی سے اُتر گئی تھی‘ یہ ایک بنیادی نوعیت کا نقطۂ انحراف تھا۔ انحراف یہ تھا کہ نظامِ خلافت میں ریاستِ مدینہ کے باشندے کسی حاکم کی نہیں‘ خدا کی رعیت تھے۔ ملوکیت میں عوام کو خدا کی نہیں‘ بادشاہ کی رعیت سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ خود کو مطلق العنان سمجھتا ہے۔ اسلامی ریاست کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ خلیفہ تقویٰ کی معراج پر فائز ہو۔ وہ خدا سے ڈرتا ہو۔ ہر لمحہ اس کے دل میں یہ حقیقت موجزن ہوتی ہو کہ وہ ایک طرف خالقِ دو جہاں کے سامنے اور دوسری طرف خلقِ خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔
اسلامی خلافت کا دوسرا ستون مشاورت ہے۔ خلفائے راشدین خوفِ خدا سے دلوں کو آباد کر کے اُن لوگوں کو اپنا مشیر مقرر کرتے تھے جو حق گوئی سے کام لیتے تھے۔ وہ مشورہ دیتے ہوئے خدا کی خوشنودی کو مقدم رکھتے تھے اور حاکم کی خوشنودی کو ہرگز کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ البتہ وہ حاکم کی خیر خواہی کو ترجیح دیتے تھے‘ چاہے ان کا مشورہ خلیفہ کی منشا اور اس کی رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتا۔ جبکہ ملوکیت میں بادشاہ اپنے استبداد اور مطلق العنانیت کے لیے ایسے لوگوں کو اپنا مشیر مقرر کرتا ہے جو ہر معاملے میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں‘ جو اس کی من مانی کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے والے نہ ہوں۔ اسی طرح خلافت میں اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے جبکہ بادشاہت میں آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
یزید میں تقویٰ تھا نہ خدا خوفی‘ اس کے روزمرہ مشاغل اسلامی تعلیمات کے منافی تھے۔ جناب امام عالی مقامؓ نے یہ ثابت کرنے کیلئے اتنی بڑی قربانی دی کہ طاقت حق نہیں۔ آج ساری دنیا اسلام کو مانتی ہو یا نہ مانتی ہو مگر اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ طاقت حق نہیں‘ حق طاقت ہے۔ ہمیں بھی حق کی طاقت کی سربلندی کو اپنا شیوہ بنا لینا چاہیے۔
ایک غیر مسلم شاعر نے امام حسینؓ سے اظہارِ عقیدت یوں کیا ہے ؎
زندہ اسلام کو کیا تُو نے
حق و باطل کو دکھا دیا تُو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا دکھا دیا تُو نے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں