بِل یا روٹی؟

مہنگائی کے ہاتھوں دم توڑتے انسانوں پر جس ظالمانہ طریقے سے بجلی کے کوڑے برسائے جا رہے ہیں‘ اس سے وہ بلبلا اٹھے ہیں۔ گزشتہ تین چار روز سے کراچی اور لاہور سمیت بہت سے شہروں میں احتجاج شروع ہے۔ شدید غم و غصے اور مایوسی میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ بجلی کے بلوں کو جلا رہے ہیں‘ چیخ اور چلا رہے ہیں‘ حکمرانوں کو خدا کے غضب سے ڈرا رہے ہیں۔ کچھ بے بس ایسے ہیں کہ اُن کا کوئی بس نہیں چلتا تو خودکشی کے ذریعے زندگی کا چراغ گل کرکے اس دنیاوی دوزخ سے نجات حاصل کر رہے ہیں۔ تاجروں کی کئی تنظیموں کی طرف سے شہر شہر احتجاج کیا جا رہا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے دو ستمبر کو کراچی سے لے کر چترال تک عوامی احتجاج کی کال دی ہے۔بجلی کے بل جاری کرنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے‘ انہیں بس ایک حکم ہے کہ عوام کی چمڑی ادھیڑو اور اُن سے بجلی کے بل کی پائی پائی وصول کرو کیونکہ آئی ایم ایف کا فرمان یہی ہے۔ جس شخص کی آمدن 30ہزار روپے ماہانہ ہو‘ اگر اس کا بل 20ہزار روپے آ جائے گا تو کیا وہ جیتے جی مر نہیں جائے گا؟
آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ہر ملک کی خبریں امیر غریب ہر کسی تک پہنچتی ہیں۔ اگر سویڈن کا وزیراعظم عام لین سے گاڑی خود ڈرائیو کر کے دفتر آتا ہے‘ اگر برطانوی وزیراعظم کے پاس خانسامے ہوتے ہیں نہ خادمائیں اور اگر سابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر رات دو دو بجے تک مہمانوں کو رخصت کرکے خود کچن میں برتن دھوتی تھی تو یہ عالمی منظر نامہ دیکھ کر پاکستانی سوچتے ہیں کہ چلو غیر مسلموں کے ہاں تو حاکم اور محکوم برابر ہیں‘ جیسے ریاستِ مدینہ میں تمام شہری برابر تھے کہ اگر عام آدمی کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوتا تھا تو سرکار دو عالمﷺ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوتے تھے۔
گزشتہ 76برس کے دوران ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کیا بنا حلیہ کررکھ دیا ہے۔ سفید پوش یا نیم متوسط کلاس کا تو اس ملک میں بُرا حال ہے۔ وہ مناسب خوراک کھا سکتے ہیں نہ بجلی کا بل ادا کر سکتے ہیں‘ نہ ٹوٹی پھوٹی گاڑی یا موٹر سائیکل میں پٹرول ڈال سکتے ہیں‘ نہ اپنے بچوں کے سکولوں کی فیس دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں۔دوسری طرف 25کروڑ آبادی میں سے ستر‘ اسی لاکھ افراد پر مشتمل ایلیٹ کلاس ہے۔ امیروں‘ وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ پیروں اور افسروں پر مشتمل اس کلاس اور عوام الناس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ بعض ذمہ دار منتخب عوامی نمائندوں کا کہنا ہے کہ سرکاری اعلیٰ افسروں کو خدمتگاروں کی فوج ظفر موج‘ کئی کئی ایکڑ کے رقبے پر مشتمل بنگلے‘ مفت بجلی اور مفت پٹرول کی سہولیات میسر ہیں۔ اگر کسی سوسائٹی میں معاشی و مالی مشکلات سب پر یکساں تقسیم ہو جائیں تو پھر محروم لوگوں کے سینے بھڑکتے ہوئے آتشدان نہیں بنتے۔ذرا سوچئے کہ یہاں بجلی کے نرخ اتنے زیادہ کیوں ہیں؟ پاکستان میں بجلی کا ایک یونٹ صارفین کو 52 روپے‘ بنگلہ دیش میں 18 روپے اور بھارت میں 14 روپے میں پڑتا ہے۔
پاکستان کے حکمران جواب دیں کہ ایسا کیوں ہے‘ پاکستان میں اتنی مہنگی بجلی کیوں پیدا ہو رہی ہے؟ ہم دریائی اور سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کالا باغ اور دوسرے ڈیم کیوں نہیں بناتے؟ یہ جواب بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ذمے ہے کہ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور عمران خان تینوں نے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں سے مہنگی بجلی ڈالروں میں کیوں خریدی؟ وطن عزیز کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں سال کے تقریباً دس ماہ شدید نوعیت کی دھوپ ہوتی ہے مگر ہم اس شمسی توانائی کو ضائع کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کئی علاقوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں‘ ہم انہیں استعمال میں لا کر بجلی پیدا نہیں کرتے۔ مہنگی بجلی پر حکومت نے 14قسم کے ٹیکس بھی عائد کر رکھے ہیں۔ پھر اسی پر بس نہیں‘ اس کے علاوہ 40فیصد چوری شدہ یا ضائع ہونے والی بجلی کے بلِ بھی عام صارفین کے بلوں پر تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ دوسروں کے غیر ادا شدہ بل اگر صارفین کو بزور شمشیر ادا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے تو عوام الناس پر کچھ بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
اگر یہ ظالمانہ کھیل تماشا کسی ایسے ملک میں ہو رہا ہوتا کہ جہاں انصاف کا نظام مضبوط ہوتا تو پھر دوسروں کے بلز کا 40فیصد بوجھ عوام کے کندھوں سے اتار کر حکمرانوں کے کندھوں پر پلک جھپکنے میں لاد دیا جاتا۔ مگر جب کسی دیار میں بیچارا سائل اپنے آپ کو اتنا مجبور و لاچار محسوس کرے اور اسے کہیں سے معاشی و معاشرتی انصاف ملنے کی توقع نہ ہو تو وہ پکار اٹھتا ہے کہ میں کس کی زنجیرِ در ہلاؤں کہاں سے انصاف لے کے آؤں؟
ترقی یافتہ ملک کے شہری اپنی آمدن کا 40فیصد سے لے کر 80فیصد تک بطور ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر یہاں ہماری ایلیٹ کلاس ٹیکس دینے کے بجائے ٹیکس چوری کے ذرائع ڈھونڈتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کی گواہی ہے کہ سینیٹر مشتاق احمد خان گہرے غور و فکر کے بعد پیچیدہ ملکی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے بجلی بلوں کے بحران سے نجات حاصل کرنے کے لیے چند نہایت قابلِ عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت مفت بجلی دینا بند کرے چاہے یہ مفت بجلی کسی بڑے سے بڑے افسر کو ملتی ہو یا واپڈا کے افسران کو ہی مہیا کی جاتی ہو۔ ملک میں فرنس آئل اور درآمدی کوئلے سے بجلی کی تیاری فوراً بند کی جائے۔ بجلی چوری‘ جو مبینہ طور پر واپڈا کی ملی بھگت سے ہوتی ہے‘ اس کو دہشت گردی کے برابر جرم قرار دیا جائے۔ عوام کو آسان‘ بلاسود اقساط پر سولر پینلز دیے جائیں۔ نئے ڈیمز بنا کر ہائیڈل بجلی پیدا کی جائے نیز سولر اور وِنڈ کے پروجیکٹس بھی لگائے جائیں۔
نگران وزیراعظم نے لوگوں کو بجلی کے بلوں میں ''ریلیف‘‘ دینے کے لیے اتوار کو کابینہ اور بجلی کے ماہرین کو طلب کیا تھا۔ کاکڑ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ''ماہرین‘‘ صارفین کو ریلیف دیں گے یا آئی ایم ایف کو جواب دیں گے؟ جنابِ وزیراعظم نے سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنے کے بارے میں وعظ و نصیحت کی مگر جب وہ جڑانوالہ گئے تو پورے تزک و احتشام اور شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ گئے۔ ایک ثقہ دانشور دوست نے اُن کے پروٹوکول کی ویڈیو بھیجی ہے جس میں 42 گاڑیاں تھیں۔ غریبوں کے ٹیکسوں پر تو ایک عوامی وزیراعظم کو یہ شان و شوکت زیب نہیں دیتی۔جناب انوار الحق کاکڑ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر لوگ 25روپے کی ایک روٹی لے کر کھائیں تو وہ 52روپے فی یونٹ کا بل ادا نہیں کر سکتے اور اگر بل ادا کریں تو روٹی نہیں کھا سکتے۔ ہم غیر عادلانہ نظام کے جواب میں انقلابِ فرانس جیسے کسی ظالمانہ انقلاب کی ہرگز تائید نہیں کر سکتے‘ مگر ہمارے ملک کے حکمرانوں کو بقول فواد حسن فواد معلوم ہونا چاہیے کہ ؎
مزاجِ شہرِ ستم گو بدل نہیں سکتا
یہ ظلم و جبر کا موسم بھی چل نہیں سکتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں