استاد سراپا خیر

پانچ اکتوبر کو عالمی سطح پر' ٹیچرز ڈے‘ منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے تو 1994ء سے اساتذہ کا دن منانے کا آغاز کیا مگر ہمارے ہاں تو صدیوں سے اُستاد کے احترام کا کلچر رائج ہے۔ استاد عملِ خیر کا استعارہ ہے۔ وہ علم و عمل کی ترویج سے معاشرے میں خیر بانٹتا ہے۔ یہ طالب علم اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے بہت ا چھے اساتذہ سے کسبِ فیض کا موقع ملا۔ یوں تو میرے معلمین کی فہرست بہت طویل ہے‘ تاہم یہاں میں صرف تین اساتذہ کرام کا ذکر کروں گا۔
میں تاریخی شہر بھیرہ کے پرائمری سکول کی پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ محلہ چڑی چوگ کا یہ سرکاری پرائمری سکول ہمارے محلہ پراچگان سے قریب تھا۔ ہم پیدل ہی سکول آیا جایا کرتے تھے۔ سکول کا نقشہ اور اپنے کمرۂ جماعت کا منظر آج بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ پانچویں جماعت کے ہمارے کلاس ٹیچر ماسٹر نذیر صاحب ہی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کی شخصیت باوقار اور باکمال تھی۔ بحیثیت ہیڈ ماسٹر ان کا کوئی الگ آفس نہیں تھا بلکہ کمرۂ جماعت کے ہی ایک کونے میں اس زمانے کی وضع کی ایک میز کرسی رکھی گئی تھی۔ تقریباً سارے ہی مضامین وہ خود پڑھایا کرتے تھے۔ ہماری کلاس میں 30کے قریب لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ یہ لڑکیاں غالباً قربِ مکانی کی بنا پر اس سکول میں زیر تعلیم تھیں۔
ماسٹر نذیر صاحب کی شخصیت انتہائی پُرکشش تھی۔ میانہ قد‘ چوڑی پیشانی اور بیضوی چہرہ تھا۔ ان کی چال باوقار اور ان کا اندازِ گفتگو نہایت شائستہ اور شستہ تھا۔ طلبہ ان کا دلی احترام بلکہ ان سے محبت کرتے تھے۔ ماسٹر صاحب گرمیوں میں بے داغ سفید شلوار قمیض پہنتے اور سر پر قراقلی ٹوپی اوڑھتے تھے۔ سردیوں میں وہ ایک نہایت نفیس گرم اچکن زیب تن کیا کرتے تھے۔ سکول کے آغاز سے قبل ماسٹر نذیر صاحب کا گرمیوں سردیوں میں یہ معمول تھا کہ وہ اپنے محلے ''پکھی وارے‘‘ سے نکلتے اور ہمارے محلہ پراچگان سے ہوتے ہوئے دریائے جہلم تک جایا کرتے۔ تین‘ چار کلو میٹر پر محیط یہ ان کا ''واکنگ ٹریک‘‘ تھا۔ وہ ہمیں بھی مارننگ واک‘ صحت و صفائی‘ نیکی اور بھلائی‘ ضرورت مند کے ساتھ ہمدردی‘ والدین اور اساتذہ کے احترام اور بہت علم حاصل کر کے ''بڑا آدمی‘‘ بننے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ تب ہم یہی سمجھتے تھے کہ ''بڑے آدمی‘‘ سے مراد ماسٹر نذیر بننا ہے اور یقینا وہ ایک بڑے آدمی تھے۔
چھٹی جماعت کا کچھ ابتدائی عرصہ تو میں نے بھیرہ کے تاریخی ہائی سکول میں گزارا اور پھر ہم 1960ء میں سرگودھا آ گئے۔ جب میں گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا کے ہیڈ ماسٹر چودھری عطا محمد کے آفس میں اپنے ایک چچا کے ساتھ داخلے کے لیے گیا تو میں ان کی بارعب شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ یہ سردیوں کا موسم تھا۔ انہوں نے گرم سوٹ پہنا ہوا تھا اور ان کے سر پر کلاہ تھا جس کا کلف سے اکڑا ہوا طرہ ان کی شخصیت کی تمکنت میں اور بھی اضافہ کر رہا تھا۔چودھری عطا محمد صاحب سکول میں ڈسپلن‘ طلبہ کی وضع قطع اور یونیفارم کی صفائی اور جوتوں کی چمک دمک پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ تب امیروں غریبوں کے لیے یہی سرکاری سکول ہوا کرتے تھے‘ تاہم سوسائٹی کی کسی اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے بچوں کو کسی طرح کی اکڑفوں دکھانے کی ہرگز جرأت نہ ہوتی تھی۔ کبھی کبھی ہیڈ ماسٹر صاحب سردیوں میں نمازِ ظہر کے دوران سکول کی مسجد میں تشریف لے آتے تھے۔ چودھری صاحب کے وزٹ کے موقع پر جتنے بچے ہوتے ان کے نام نوٹ کر لیے جاتے جنہیں ہیڈ ماسٹر صاحب مارننگ اسمبلی میں انعام عنایت کیا کرتے تھے۔
جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ میں جوش و خروش پایا جاتا ہے ویسا جوش و جذبہ اس زمانے میں گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا اور انبالہ مسلم سکول کے درمیان ہاکی کے فائنل میچ پر دیکھنے میں آتا تھا۔ جب ہمارا سکول ضلعی سطح کے اس فائنل میچ کو جیت جاتا تو طلبہ کی دیوانگی و وارفتگی دیکھنے سے تعلق رکھتی۔ اس موقع پر طلبہ فرطِ جذبات سے ہیڈ ماسٹر صاحب کو کندھوں پر اٹھا لیتے اور سرگودھا سٹیڈیم میں خوب خوشی کا اظہار کرتے۔ چودھری عطا محمد صاحب تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کی بھی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان دنوں اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحبان اپنے تعلیمی ادارے کو مثالی بنانے پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے تھے۔ چودھری عطا محمد صاحب جب تک حیات تھے ان سے رابطہ رہا۔ اب دعائے مغفرت کی صورت میں ان کے ساتھ رابطہ قائم ہے۔
1964ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا پہنچے تو اس زمانے میں وہاں ایک سے ایک نابغۂ روزگار تھا۔ پروفیسر غلام اصغر جیلانی‘ جناب پروفیسر خلیل بدایونی‘ پروفیسر ظلِ حسنین اور پروفیسر ملک محمد افضل وغیرہ۔ 1964ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخل ہونے کے بعد میں جب فرسٹ ایئر میں چند طلبہ پر مشتمل عربی کلاس میں گیا تو ہماری ملاقات جس شخصیت سے ہوئی ان کا اسمِ گرامی پروفیسر خورشید رضوی تھا۔ پروفیسر صاحب نرم دم گفتگو گرم دم جستجو تھے۔ تب ہمیں اتنا اندازہ تو ہوا کہ یہ استادِ محترم نہایت صاحبِ علم اور شفیق و منفرد ہیں‘ مگر ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ پاکستان کے ہی نہیں دنیائے اردو و عربی کا ایک تابندہ و درخشندہ ستارہ ہیں۔ یہ تو آگے چل کر ہمیں معلوم ہوا کہ استادِ محترم کا مقام و مرتبہ کتنا بڑا ہے۔ ڈاکٹر سیّد خورشید رضوی اس صدی کی ایک عظیم علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ وہ ایک ایسے عبقری ہیں جن کی ذات میں کئی تنوع رنگ کمال و اتمام کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ وہ عربی زبان و ادب کے استاد ہیں اور انہوں نے عربی ہی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ استاد کا طریقِ درس ایسا تھا جس سے ان کے شاگردوں کو کارگاہِ حیات میں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آمادۂ عمل ہونے کا حوصلہ ملتا تھا۔
استادِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی کو اللہ نے تصویری حافظے کی نعمت سے نوازا ہے۔ جو تحریر یا منظر ایک بار ان کی نظروں کے سامنے سے گزر گیا گویا اسے ان کے ذہنی کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ اسی لیے جب وہ عربی یا فارسی ایم فل یا پی ایچ ڈی کی کلاس لیتے ہوئے ان زبانوں کے متعلقہ مصادر کی عبارتیں اپنے حافظے کی الماریوں سے نکال کر فرفر طلبہ کے سامنے پیش کرتے ہیں تو وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے 23برس سرگودھا میں بسر کیے۔ اس دوران وہ اس شہر کے ہو گئے اور سارا شہر ان کا گرویدہ ہو گیا۔ رضوی صاحب اردو زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں نہایت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزشتہ نصف صدی سے محبت و عقیدت کا رشتہ قائم ہے۔ آج بھی میں یوں محسوس کرتا ہوں جیسے ان کی کلاس میں بیٹھا ہمہ تن گوش ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی دلاویز باتیں سامع کے دل و دماغ پر یوں اثر انداز ہوتی ہیں کہ اس کے سامنے سوچ کے کئی دریچے وا ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً 34برس سے وہ گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی میں پہلے ریگولر اور اب پروفیسر ایمریطس ہیں۔ چند ماہ قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈاکٹر صاحب کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا ہے۔
ایک اچھا استاد طالب علم کے لیے معلم‘ مربی‘ غمگسار اور ہمدرد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے ہی استاد ہیں۔ ہم اُن کی درازیٔ عمر کے لیے دعاگو ہیں۔ ایک بار میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں جناب مجید امجد سے پوچھا تھا کہ ان کی شعر گوئی کا محرک کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میں عملِ خیر کے تسلسل میں لکھتا ہوں۔ اسی طرح ڈاکٹر خورشید رضوی تدریسی فرائض سراپا خیر بن کر انجام دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں