اقبال‘ مغرب اور فلسطین

اس وقت اسرائیل کے خلاف اصل جنگ غزہ کے کھنڈرات میں نہیں مغرب کے کوچہ و بازار میں لڑی جا رہی ہے۔ بلاشبہ اسرائیل اپنے گرجتے ہوئے طیاروں سے بمباری اور اپنے دیوہیکل ٹینکوں سے جن فلسطینیوں پر گولہ باری کر رہا ہے وہ دیکھنے میں تو گوشت پوست کے انسان ہیں مگر وہ عزم و ہمت کا کوہ ہمالیہ ہیں۔ایسے لوگ آج کے زمانے میں کہیں آپ نے دیکھے ہیں کہ جو اپنے ہاتھوں میں اپنے ہنستے مسکراتے پھول سے بچوں کے لاشے اٹھائے ہوئے نہ آہ و زاری کرتے ہیں نہ واویلا کرتے ہیں بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ربِ کعبہ کی قسم ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ کیسے عالی ظرف لوگ ہیں کہ جو اپنے 'برادرانِ یوسف‘ سے مدد کا کوئی مطالبہ کرتے ہیں اور نہ ہی عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی اسرائیل کیلئے بلامشروط طرفداری کا کوئی گلہ شکوہ کرتے ہیں۔ نیتن یاہو نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ اسرائیل کی جنگ صرف غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ ''تاریکیوں کی اولاد‘‘ مسلمانوں کے خلاف سارے مغرب کی جنگ ہے۔
البتہ یہاں اس نے ایک وضاحت نہیں کی کہ مغرب سے اس کی کیا مراد ہے؟ یقینا اس سے نیتن یاہو کی مراد مغربی حکمران ہیں جو اپنی اپنی مصلحتوں کی قبائے سیاہ زیب تن کر کے وقتی و دنیاوی مفادات کے سیاہ چشموں سے اپنی آنکھیں ڈھانپ کر اسرائیلی جارحیت و سفاکیت کی اندھا دھند حمایت کر رہے ہیں ۔
نیتن یاہو اور اس کے صہیونی انتہا پسند ذرا اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ وہ مغرب میں اپنے خلاف نکلنے والی عوامی افواجِ قاہرہ کے ہاتھوں شکست فاش کھا چکے ہیں۔ صہیونیوں کے خلاف یہ ''جنگِ عظیم‘‘ واشنگٹن ‘لندن‘ نیو یارک‘ ڈیلس‘ برلن‘ سڈنی اور یورپ کے دیگر شہروں میں لڑی جا رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے تین لاکھ سے اوپر امریکیوں کا مجمع بآواز بلند نعرے لگاتا ہے کہ جوبائیڈن‘ اگر ہمارا ووٹ چاہئے تو فی الفور غزہ میں جنگ بند کرو۔ نیو یارک میں یو این او کے سامنے لاکھوں یہودی نعرہ لگاتے ہیں‘نیتن یاہو‘ ہمارے نام پر یہ کشت و خون فی الفور بند کرو۔ لندن میں بی بی سی کے سامنے لاکھوں انسانوں کی ریلی ایک ہی نعرہ بلند کرتی ہے ''بی بی سی جھوٹ بولنا بند کرو‘‘۔
سچی بات یہ ہے کہ مغربی عوام نے اس موقع پر ''امتِ مسلمہ‘‘ کو بتا دیا ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکنے کیلئے جس احساس و مروت اور جرأتِ اظہار سے آپ پوری طرح محروم ہیں ۔نیتن یاہو نے کہا کہ سب مسلمان ''عمالیق‘‘ ہیں اور ان کا قتل ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔منقار زیر پر 57اسلامی ممالک کے حکمران جان لیں کہ نیتن یاہو کے صیہونی ارادے صرف فلسطینیوں کے خلاف نہیں سب مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ ہم اس وقت کسی تاریخی و مذہبی بحث میں پڑے بغیر اسرائیل کے متنازع وزیراعظم کو اتنا یاد دلانا چاہتے ہیں کہ تاریخ انسانی کا کوئی مذہب‘ کوئی انسانی فلسفہ اور کوئی جمہوری دستور اس ظلم و بربریت کی اجازت نہیں دیتا جو آج نیتن یاہو اور گزشتہ 75برس سے اس جیسے دیگر صیہونی غاصبوں کا شیوہ تھا۔
آج کے مغربی حکمرانوں نے مغربی تہذیب کی خوبیوں کو گہنا دیا ہے اور اس کی خامیوں کو اپنے سفاکانہ رویے سے عیاں کر دیا ہے۔ آج سے چار سو سال قبل وجود میں آنے والی مغربی تہذیب کی خامیوں کی مرشد اقبال نے اُس وقت نشاندہی کی تھی جب یہ تہذیب اپنے نصف النہار پر تھی۔ اقبال نے پہلے مغربی فلسفے اور تہذیب کا بنظر عمیق جائزہ لیا اور پھر مغرب کے دل یورپ میں جا کر اس تہذیب کے مظاہر کو بچشم خود دیکھا تھا۔ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی بنیاد دو ستونوں پر کھڑی ہے ایک مادیت اور دوسری عقلیت۔ اقبال نے تقریباً ایک صدی پہلے دنیا کو سمجھا دیا تھا کہ مادہ پرستی نے یورپ کو اخلاقی انحطاط سے دوچار کر دیا ہے۔ اقبال نے غالباً اپنے قیام لندن کے دوران ہی کہا کہ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبالؒ نے اپنے دو اشعار میں کئی دہائیاں پہلے مغربی تہذیب کی اس زبوں حالی کی پیش گوئی کر دی تھی جہاں آج اسے امریکہ و یورپ کے حکمرانوں نے پہنچا دیا ہے۔
مرشد فرماتے ہیں:
یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم‘ یہ حکمت‘ یہ تدبر‘ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم ِمساوات
صیہونی ریاست کیلئے پہلی کاغذی کارروائی کے 1917ء میں سامنے آتے ہی علامہ نے بھانپ لیا تھا کہ مغرب کے آگے ارادے کیا ہیں۔ اس لئے 30دسمبر 1919ء کو لاہور میں اقبالؒ نے ایک جلسے میں بزبان خود ایک قرارداد پیش کی جس میں انہوں نے برطانوی حکومت کو اپنا وعدہ یاد دلایا جس میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی مسلم سرزمین کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
1931ء میں یروشلم میں پہلی موتمرعالم اسلامی فلسطین کے مسئلے پر منعقد ہوئی۔ اس میں علامہ اقبالؒ نے شرکت فرمائی تھی۔ مغرب کے بارے میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ وہ مائیکرو لیول پر ایفائے عہد‘ دیانت و امانت اور اصول پسندی پر عمل پیرا ہوتا ہے مگر میکرو لیول پر وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ بد عہدی‘ وعدہ خلافی‘ بے اصولی‘ عدل و انصاف کی پامالی کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا۔ تبھی جب 1920 ء میں امن کیلئے قائم ہونے والی یو این او کی پیشرو لیگ آف نیشنز پر مغربی طاقتوں کے قبضے کے بعد پیام مشرق میں دو نہایت حکیمانہ اشعار فارسی میں کہے تھے جن کا ترجمہ یوں ہے:جہاں کا دکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت ختم کی جائے‘ لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کیلئے ایک انجمن بنائی ہے۔آپ ان اشعار پرجتنا غور و فکر کریں گے اتنا ہی علامہ اقبالؒ کی دور اندیشی اور ژرف نگاہی کی داد دیں گے۔
کل جو لیگ آف نیشنز کی حالت ان قوتوں نے کر دی تھی آج اس سے بدتر حالت ان کے ہاتھوں یو این او کی ہو چکی ہے۔مغربی حکمرانوں نے عالمی اداروں اور عالمی قوانین اور عالمی عدل و انصاف کی عدالتوں اور عوامی ووٹوں سے وجود میں آنے والی حکومتوں کو بیچ چوراہے میں رسوا کردیا ہے۔
ایک اور بڑے اہم نکتے کی طرف ہم محض اشارہ کریں گے کہ طاقت کے بے لگام استعمال کے بارے میں مغرب کا دعویٰ تھا کہ اسے جمہوری اداروں سے حدود و قیود کا پابند کیا جا سکتا ہے مگر یہ دعویٰ اسرائیل کے مغربی طرفداروں نے بالکل غلط ثابت کر دیا ہے۔ امریکی سینیٹ بھی موجود ہے‘ کانگریس بھی کام کر رہی ہے‘ صدیوں کی پارلیمانی و جمہوری روایات کی نام لیوا برطانوی پارلیمنٹ بھی اپنے روٹین اجلاس منعقد کر رہی ہے مگر انہیں وہ صدائے احتجاج سنائی نہیں دے رہی جو اسرائیل کی مذمت میں ان کے لاکھوں عوام بلند کررہے ہیں ۔
جہاں تک فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک کا تعلق ہے وہاں قبرستانوں کی سی خاموشی ہے۔ اسرائیل کے امتِ مسلمہ کے خلاف جارحانہ و قاتلانہ عزائم ڈھکے چھپے نہیں مگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل صرف غزہ کے فلسطینیوں پر ہی موت بانٹے گا اور بس!صیہونی عزائم اس سے کہیں بڑھ کر خوفناک اور ہولناک ہیں۔ نہ جانے امت مسلمہ کب آنکھیں کھولے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں