فلسطین: امتِ مسلمہ کی امیدیں

اگرچہ اہلِ فلسطین کو اپنے عرب بھائیوں سے کچھ زیادہ توقعات نہ تھیں۔ کئی عرب ممالک نے 2020ء میں اسرائیل سے فلسطینیوں کی علیحدہ خود مختار ریاست کے بارے میں کوئی گارنٹی حاصل کیے بغیر صہیونی ریاست سے سفارتی و تجارتی تعلقات استوار کر لیے تھے‘ تاہم بہت سے مسلمانوں کا خیال تھا کہ اہلِ غزہ پر اسرائیلی جنگی جہازوں کی مسلسل بمباری اور ان کے ٹینکوں کی گولہ باری کے نتیجے میں سامنے آنے والے ہولناک مناظر دیکھ کر مسلم قائدین کے دلوں میں خوابیدہ اسلامی اخوت کے جذبات بیدار ہو جائیں گے۔ اسی پس منظر میں گزشتہ ہفتے ریاض میں منعقد ہونے والے او آئی سی اور عرب لیگ کی مشترکہ سربراہی کانفرنس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی گئی تھیں۔ بعض عالمی تجزیہ کاروں کا اندازہ تھا کہ یہ کانفرنس چند سخت نوعیت کے اقدامات اٹھائے گی یا کم از کم ایسے اقدامات کی دھمکی ضرور دے گی۔ یہ خیال بھی کیا جا رہا تھا کہ یہ سربراہی کانفرنس شرقِ اوسط میں امریکہ کو اپنے فوجی ہوائی اڈوں کے استعمال سے وقتی طور پر روک دے گی۔ تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک سیز فائر تک اسرائیل اور اس کے یورپی سرپرستوں کو تیل کی سپلائی بند کر دیں گے۔عامۃ المسلمین کو یہ توقع بھی تھی کہ اور کچھ نہیں تو وہ عرب اور اسلامی ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ روابط ہیں‘ وہ اس صہیونی ریاست سے ہر طرح کے سفارتی و تجارتی تعلقات فوری طور پر منقطع کر لیں گے‘ مگر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی چوٹ اسرائیل محسوس کرتا۔ اس کے بجائے ایک بے جان قسم کی قرارداد منظور کی گئی‘ جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ صہیونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت بند کی جائے۔ اسرائیل کے حقِ دفاع کے نام پر اسرائیلی جارحیت روکی جائے۔ غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا کوئی بھی ''سیاسی حل‘‘ مسترد کیا جائے گا۔ اس قرارداد میں غزہ پر غاصبانہ اسرائیلی قبضے کے خلاف اہلِ فلسطین کے حقِ مزاحمت کا اشارہ تک موجود نہ تھا۔
مسلمانوں کی ضعیفی و کم ہمتی سے انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مزید شہ پائی۔ ریاض میں منعقد ہونے والی 11نومبر کی اس اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد اسرائیل نے اپنی جارحیت میں اور شدت پیدا کر دی ہے۔ چن چن کر ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ پناہ گاہوں اور عبادت گاہوں پر بھی شدید بمباری کی گئی۔ بدھ کے روز تو اسرائیلی فوجیوں نے تمام انسانی اقدار اور عالمی ضابطوں کو لائیو ساری دنیا کے سامنے اپنے پاؤں تلے روندا اور ایک سو فوجی ٹینکوں پر سوار ہو کر دندناتے ہوئے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا میں داخل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے ایک ایک کمرے کی تلاشی لی۔ مریضوں کو زود و کوب کیا۔ ڈاکٹروں پر بندوقیں تانیں اور انہیں حکم دیا کہ ہسپتال سے نکل جائیں۔ ساری دنیا ان ڈاکٹروں کی عظمت اور جرأت کو سلام پیش کرتی ہے جو انسانیت سے عاری صہیونیوں کی دھمکیوں سے ہرگز مرعوب نہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں گولیوں سے بھون دو مگر ہم 650مریضوں اور حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا بچوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔
ادھر یہ وحشت و بربریت تھی تو دوسری طرف ہزاروں امریکیوں نے واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر امریکی صدر کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح کے مظاہرے کئی دیگر امریکی شہروں میں بھی کیے گئے۔ شکاگو میں لاکھوں یہودیوں نے اسرائیل کی صہیونی حکومت کی شدید مذمت کی اور اہلِ غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ اسی طرح لندن اور دیگر کئی یورپی شہروں میں بھی مظاہرین نے غزہ میں فی الفور جنگ بندی کا مطالبہ کیا لیکن امریکی سرپرستی کی بنا پر اسرائیل اتنا خود سر ہو چکا ہے کہ اس نے جمعرات کے روز غزہ کی ایک بڑی مسجد پر پھر بمباری کی اور پچاس نماز پڑھتے ہوئے فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
مسلم قیادت کی بے بسی کا منظر آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب ذرا یو این او کی بے بسی کی تصویر بھی دیکھ لیجئے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں یو این او کے دفاتر اور بعض دوسری جگہوں پر شدید بمباری کرکے اقوامِ متحدہ کے 102ذمہ داروں کو سفاکیت کے ساتھ ہلاک کر دیا‘ اس درندگی کے بعد اسرائیل کا انسانی برادری سے اخراج بنتا تھا اور نیتن یاہو پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا مگر یو این او کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اقوامِ متحدہ کے دفتر میں اپنے عملے کے ساتھ ایک منٹ کی خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے۔ اس بے بسی کے عالم میں وہ کسی دوسرے کے لیے کیا کر سکیں گے۔
ایک طرف بے بسی کا یہ حا ل ہے تو دوسری طرف ایسے جرأت مندانہ مناظر بھی سامنے آ رہے ہیں کہ جن کی دید سے آپ کی روح سرشار ہو جاتی ہے۔ میری لُو میکڈونلڈ‘ آئرلینڈ میں سن فین پارٹی کی سربراہ ہیں‘ وہ پارلیمنٹ میں قائدِ حزب اختلاف بھی ہیں۔ محترمہ نے اپنی پارٹی کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر ایک روح پرور خطاب کیا۔ انہوں نے یورپی لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں شہید ہونے والے بچے پوچھتے ہیں کہ ہمارے تحفظ کے لیے وضع کردہ عالمی قوانین کہاں ہیں؟ اپنے پھول سے بچے کا لاشہ اٹھائے ہوئے غزہ کی ماں پوچھتی ہے کہ کیا میرے راج دلارے کے قاتل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں؟آئرش پارلیمنٹ کی اپوزیشن لیڈر نے کہا ''میں نہایت سوز کے ساتھ آئرش حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ سبقت لے اور سب سے پہلے انسانیت کے قاتل اسرائیلی وزیراعظم کو عالمی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کروائے۔ میری لُو میکڈونلڈ نے آئرلینڈ سے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ اس موقع پر آئر لینڈ میں فلسطینی سفیر ڈاکٹر جیلان وھبہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ فلسطینی سفیر جب خطاب کے لیے روسٹرم پر کھڑے ہوئے تو ہال میں موجود آئرش سیاست دان خواتین و حضرات نے کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے اُن کا پُرجوش استقبال کیا۔
ایک اور منظر ملاحظہ کیجئے۔ آسٹریلیا سے ایک بحری جہاز اسلحہ لے کر اسرائیل کی طرف روانگی کے لیے تیار تھا مگر غیرت مند آسٹریلوی عوام نے بندرگاہ پہنچ کر آسٹریلیا کے اس انسانیت کش فیصلے کے خلاف نعرے لگائے۔ بہت سے انسانیت کا درد رکھنے والے شہریوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر بہری جہاز کو سمندر میں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ امریکہ‘ یورپ سمیت دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں نے اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی ہے اور غزہ کے فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک کی باضمیر قیادتوں نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لیے جن میں جنوبی امریکہ کے بولیویا‘ چلی‘ وینزویلا اور برازیل وغیرہ شامل ہیں۔
بدھ کے روز لندن کے ہاؤس آف کامنز میں غزہ کے اندر فوری سیز فائر کے لیے ووٹنگ ہوئی تو لیبر پارٹی کے 70ایم پیز نے پارٹی پالیسی کے خلاف سیز فائر کے حق میں ووٹ دیا۔ ایوانِ زیریں کی رکن اور لیبر پارٹی کی طرف سے شیڈو وومن وزیر یاسمین قریشی نے سب سے پہلے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ پھر مانچسٹر کے ایم پی‘ افضل خان بھی مستعفی ہو گئے۔ جمعرات کے روز یو این او میں غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے قرارداد منظور ہو گئی ہے مگر اسرائیل نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اسے تسلیم نہیں کیا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے او آئی سی سے مایوس ہو کر اب مغرب کے انسانیت نواز عوام اور وہاں کے جرأت مند سیاست دانوں سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ 57اسلامی ممالک کی قیادتوں کے لیے یہ بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں