امریکی قانون سازوں کا کھلا تضاد

ایک دو روز قبل تقریباً ایک درجن امریکی اراکینِ کانگریس نے اپنے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کو پاکستان کے حوالے سے ایک تفصیلی خط لکھا۔ ایوانِ نمائندگان کے ان گیارہ ممبران میں امریکی ریاست منی سوٹا سے منتخب مسلمان رکن الہان عمر بھی شامل ہیں۔ ان اراکین نے امریکی وزیرِ خارجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی اقتصادی و فوجی دونوں طرح کی امداد اس وقت تک معطل کر دیں جب تک پاکستان میں دستور بحال نہیں کر دیا جاتا اور فیئر اور فری انتخابات نہیں کروائے جاتے۔ اس کے علاوہ اراکینِ کانگریس نے پاکستان کے توہینِ رسالت قانون میں 2023ء کے ایک نئے منظور شدہ ترمیمی پارلیمانی بل کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ ان ممبران نے امریکی وزیرِ خارجہ کے نام اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس بل پر صدرِ پاکستان کے دستخط ثبت ہونے کے بعد 16اگست 2023ء کو ایک ہجوم نے جڑانوالہ میں کئی گرجا گھروں اور مسیحیوں کے مکانوں کو آگ لگا دی تھی۔ اس خط میں امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی ایک رپورٹ کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں توہینِ رسالت قانون کی بنا پر تشدد کے خطرات سے خوفزدہ رہتی ہیں۔خط کی تان انٹونی بلنکن کو دی گئی ایک پیشکش پر توڑی گئی ہے۔ اس پیشکش میں کہا گیا ہے کہ ہم امریکی وزیر ِخارجہ کے ساتھ مل کر پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی بہتری اور سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔
یقینا کسی بھی ملک میں شہریوں کے انسانی و جمہوری حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ مکتوب نویس امریکی اراکینِ کانگریس کے رویوں کا تضاد تو ہم آگے چل کر بیان کریں گے مگر پہلے ہم خط کے مندرجات میں دی گئی معلومات کا جائزہ لیں گے۔
کسی بھی امریکی منتخب رکنِ پارلیمنٹ یا کسی بھی منصب پر فائز عہدیدار کو لب کشائی اور خامہ فرسائی سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر لینی چاہیے۔ خط کی ابتدا میں کہا گیا ہے کہ جب تک پاکستان میں دستور بحال نہیں ہو جاتا... ان ارکینِ کانگریس کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں دستور پوری طرح بحال اور فعال ہے۔ یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ ابھی چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9مئی کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی کو روک دیا تھا۔ اس فیصلے پر نظرثانی کی کئی درخواستیں ملک کی اسی سب سے بڑی سویلین عدالت میں دائر کی گئی ہیں۔
پاکستان میں شفاف انتخابات کی بات کریں تو فاضل اراکینِ نمائندگان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ آٹھ فروری 2024ء کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اتوار کے روز پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں سے ایک جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اپنے وقت پر کروائے گا۔ البتہ پاکستان کے سب سیاست دان چاہتے ہیں کہ ملک کی ہر سیاسی پارٹی بشمول تحریک انصاف کو الیکشن میں شمولیت کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔
جہاں تک توہینِ رسالت قانون میں 2023ء کے ترمیمی بل اور جڑانوالہ میں گرجا گھروں اور چند مسیحی رہائش گاہوں پر حملوں بارے کیے گئے تجزیے کا تعلق ہے تو یہ تجزیہ و نتیجہ بھی کم علمی پر مبنی ہے۔ پاکستان میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو نہ صرف آئینی و ریاستی تحفظ حاصل ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی اقلیتوں کے لیے بھرپور احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ مغرب میں بعض کوتاہ اندیش یہ سمجھتے ہیں کہ توہینِ رسالت قانون صیاد کی طرح گھات لگا کر کسی نہ کسی بہانے اقلیتی شہریوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے‘ ایسا ہرگز نہیں۔ بعض اوقات کسی غلط فہمی یا لوگوں کی ذاتی پرخاش کی بنا پر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس کی حکومتی‘ مذہبی اور عوامی سطح پر سخت مذمت کی جاتی ہے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔
جڑانوالہ واقعے کی مذمت اور مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے حکومتی سطح پر وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان بنفسِ نفیس وہاں گئے تھے۔ بہت سی مذہبی جماعتوں نے مسیحی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد اور دل جوئی کی۔ حتیٰ کہ بعض مقامی علمائے کرام نے مسیحیوں کو پیشکش کی کہ وہ اُن کی مساجد اور مدرسوں میں آ کر اپنے طریقے کے مطابق عبادت کریں۔ وسیع القلبی و وسیع الظرفی کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہو گی۔ امریکی کانگریس کی مسلمان رکن الہان عمر کو تو پاکستان کے ان مذہبی و سیاسی حالات سے آگہی ہونی چاہیے تھی۔ الہان 2022ء میں پاکستان کے دورے پر آئی تھیں اور وہ آزاد کشمیر بھی گئی تھیں۔
امریکی وزیرخارجہ کو یہ خط لکھنے کے لیے اراکینِ کانگریس نے جو وقت منتخب کیا‘ وہ بھی نہایت باعثِ حیرت ہے۔ اس وقت پاکستان کو عالمی اُفق پر کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ تو اسرائیل ہے جو گزشتہ 44روز سے بنیادی انسانی حقوق کو لائیو ساری دنیا کے سامنے اپنے پیروں اور ٹینکوں کے تلے روند رہا ہے۔ وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ کے معصوم شہریوں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ اس وقت تک نیتن یاہو بارہ ہزار سے اوپر غزہ کے فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ ان شہیدوں میں پانچ ہزار سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ بچوں کے خصوصی حقوق تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بھی لکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کا ہر مذہب پھول سے بچوں اور معصوم کلیوں کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے۔ الہان عمر کو تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ سورۃ التکویر میں خالقِ دو جہاں نہایت جلال سے ارشاد فرماتے ہیں :''اور جب زندہ درگور کی گئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس خطا پر ماری گئی‘‘۔ آج اسرائیلی بمباری اور گولہ باری میں یہ ننھی منی بچیاں اور بچے کس درندگی سے زندہ درگور کیے جا رہے ہیں۔ اور پھر مکتوب نویس اراکینِ کانگریس نے الشفا ہسپتال میں صہیونی ٹینکوں کو داخل ہوتے اور وہاں سے مریضوں کو باہر نکالتے اور اس دوران بیماروں اور نوزائیدہ بچوں کو دم توڑتے ہوئے تو ٹیلی ویژن پر دیکھا ہوگا۔ اس پر ان اراکین نے انٹونی بلنکن اور جوبائیڈن کو کتنے خطوط لکھے ہیں؟ کتنے خطوط میں نیتن یاہو پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنے‘ اقوامِ متحدہ کے 102افسروں اور کارکنوں کو بمباری سے ہلاک کرنے کی پاداش میں عالمی عدالتِ انصاف میں لانے کے بارے میں مکتوب لکھے ہیں؟ امریکہ اسرائیل کے لیے نہ صرف خود شب و روز اسلحہ بھیج رہا ہے بلکہ اپنے اتحادیوں سے بھی یہی ڈیمانڈ کر رہا ہے‘ اس کے بارے میں کتنے خطوط تحریر کیے گئے ہیں؟ امریکہ نے غاصب صہیونی ریاست کی انسانیت دشمنی کو نہ صرف شہ دی ہے بلکہ اس کے لیے خزانوں کے منہ بھی کھول دیے ہیں۔ ان اراکینِ کانگریس نے امریکی وزیر خارجہ اور اپنے صدر سے کسی خط میں اسرائیل کی عسکری و اقتصادی امداد بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے یا نہیں؟
2013ء میں مصری فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی نے مصر کے پہلے آزادانہ الیکشن میں منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کی حکومت پر شب خون مار کر تختہ اُلٹ دیا۔ بعد ازاں منتخب صدر محمد مرسی دورانِ قید جیل میں دم توڑ گئے۔ السیسی گزشتہ دس برس سے جمہوریت کے تابوت پر بیٹھا آمرانہ حکومت کر رہا ہے اور امریکی حکومت اسے مسلسل اربوں ڈالر فوجی اور معاشی امداد دے رہی ہے۔ اس کے بارے میں اراکینِ کانگریس نے کتنے خطوط لکھ کر مصر میں جمہوریت قائم کرنے اور اس کی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے؟ پاکستان کے لیے خطوط اور اسرائیل و مصرکے لیے مکمل خاموشی۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں