اہلِ غزہ کی نسل کُشی جاری

جہاں ساری دنیا سے اسرائیلی جارحیت و بربریت کے خلاف بلند ہونے والی احتجاجی صدائیں صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہوں وہاں مجھ ایسے بے نوا کی تلخ نوائی بڑی بے معنی لگتی ہے‘ تاہم اس سلسلے میں میرا مؤقف بھی وہی ہے جو اینلے شیلین کا ہے۔
شیلین گزشتہ ہفتے امریکی وزارتِ خارجہ سے صدر جوبائیڈن کی اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہوئی ہیں۔ وہ وزارتِ خارجہ میں انسانی حقوق ڈیسک کی انچارج تھیں۔ واشنگٹن پوسٹ‘ سی این این‘ این بی سی اور دیگر کئی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کی آفیسر نے کہا کہ انسانی حقوق کا تحفظ ہی میری ذمہ داری تھی‘ مگر جب ہماری پالیسی غزہ میں اسرائیلی نسل کش کارروائیوں کو عملاً پرموٹ کر رہی ہے تو پھر کہاں کے انسانی حقوق اور کہاں کا تحفظ۔ انٹرویو کے دوران ایک اینکر نے شیلین سے پوچھا کہ کس خیال نے اُن کے مستعفی ہونے میں حتمی کردار ادا کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شیلین نے کہا کہ میری ایک چھوٹی سی بچی ہے۔ میں سوچتی تھی کہ کل جب اس بچی کو سکول میں کتابیں پڑھ کر ان انسانیت کش کارروائیوں کا علم ہوگا تو وہ مجھ سے پوچھے گی: مام! آپ نے یہ کیا کیا؟ تب میں اسے جواب دوں گی کہ بیٹا میں وزارتِ خارجہ سے مستعفی ہو گئی تھی اور میں نے نسل کشی کی اسرائیلی کارروائیوں کو رکوانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو میرے بس میں تھا۔ شیلین کا کہنا ہے کہ اگرچہ میرے استعفے سے امریکی پالیسی تو نہیں بدلے گی البتہ میرا ضمیر مکمل طور پر مطمئن ہے۔ میرا بھی یہی نقطۂ نظر تھا کہ کل جب میرے گرینڈ چلڈرن مجھ سے پوچھیں گے کہ آپ میڈیا پرسن تھے تو آپ نے یہ ظلم و ستم کیوں نہ رکوایا تو میں بھی یہ کہہ سکوں گا کہ اگرچہ مجھے اپنی ''اوقات‘‘ کا اچھی طرح اندازہ تھا مگر اس کے باوجود میں نے زبانی و تحریری طور پر وہ سب کچھ کیا جو میرے بس میں تھا۔
اوائل مارچ میں آٹھ دس امریکی‘ برطانوی اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز نے دو ہفتے تک غزہ کے ہسپتالوں میں برستے بموں کے دوران شب و روز کام کیا اور ہزاروں فلسطینی زخمیوں اور مریضوں کا علاج کیا۔ اس میڈیکل مشن میں دو پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر بلال حسین ایمرجنسی سپیشلسٹ اور دوسری گائناکالوجسٹ ڈاکٹر حنا چیمہ تھیں۔ ان دونوں ڈاکٹروں نے وہاں کا جو آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے وہ انتہائی روح فرسا ہے ۔ ڈاکٹر بلال نے بتایا کہ گزشتہ پانچ‘ چھ ماہ کی بمباری سے پہلے یہاں 36 ہسپتال کام کر رہے تھے جن میں سے 26 ہسپتال کھنڈرات کا ڈھیر بن چکے ہیں اور 24 لاکھ کی آبادی کے لیے صرف دس ہسپتال باقی ہیں۔ پاکستانی نژاد ڈاکٹرز اور ان کے ساتھی الاقصیٰ ہسپتال میں کام کرتے رہے۔ یہاں شدید زخمی اور کئی پیچیدہ مریضوں کا اس ٹیم نے دوائیوں کی عدم دستیابی اور آپریشن کے لیے ضروری آلات کی کمیابی کے باوجود اللہ کے بھروسے پر علاج بھی کیا اور سرجری بھی کی۔
ڈاکٹر حنا چیمہ نے بتایا کہ ہم نے بچشمِ خود دیکھا کہ مصر سے رفح آنے والی سڑک پر خوراک سے لدے ہوئے سینکڑوں ٹرک اسرائیلی فورسز نے روک رکھے تھے اور انہیں غزہ میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا۔ خاتون ڈاکٹر نے بتایا کہ خوراک کی کمی اور پانی کی قلت کے باعث دم توڑتے ہوئے بچوں کو دیکھتے تھے تو کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ان ڈاکٹروں نے اہلِ غزہ کو خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دیکھا۔ اس ساری تشویشناک صورتحال میں بھی ہمارے ڈاکٹروں نے فلسطینی نوجوانوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں میں سے کسی کو مایوس اور ناامید نہیں دیکھا۔ اب تک زندہ بچ جانے والوں میں شاید ہی کوئی فلسطینی ایسا ہو جس کے ایک یا کئی کئی پیارے اسرائیلی بمباری کا نشانہ نہ بن چکے ہوں۔ اہلِ غزہ نے ہمارے نوجوان ڈاکٹروں کو بتایا کہ انہوں نے اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ حیات و موت میں کوئی فاصلہ نہیں۔ ایمانِ کامل رکھنے والے یہ مومنین راضی برضا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہر شب یہ سوچ کر سوتے ہیں کہ اگلی صبح ہماری آنکھ جنت میں کھلے گی یا ارضِ فلسطین پر۔
امریکہ کو اپنی اسرائیل نواز پالیسیوں کی بنا پر ملک کے اندر اور باہر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ میں ایک سروے کے مطابق 55 فیصد امریکیوں نے بائیڈن حکومت کی مڈل ایسٹ پالیسیوں پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جبکہ 36 فیصد نے حکومتی پالیسیوں سے اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح پارٹی کے اندر بھی صدر جوبائیڈن کو ڈیمو کریٹ اراکین کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بار بار سکیورٹی کونسل میں سیز فائر اور امن کی ہر قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کیا۔ ایک ہفتہ قبل سکیورٹی کونسل میں سیز فائر کی متفقہ قرارداد پیش ہوئی تو امریکہ نے اس کی حمایت تو نہیں کی مگر قیامِ امن کے ادارے میں ہونے والی ووٹنگ سے خود کو الگ رکھا۔ امریکہ کو وہاں مقیم عرب امریکیوں کے دباؤ کا احساس تو ہے مگر اس کی کوئی پروا نہیں۔ غزہ میں ہونے والے قتلِ عام پر بھی سپر پاور کو کوئی فکر مندی نہیں۔ روزانہ غزہ میں اب بھی ستر ‘اسی فلسطینی شہید کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ نے اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے اسے مزید 2.5بلین ڈالرز کا انتہائی تباہ کن اسلحہ بھیجا ہے۔
دوسری طرف انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار امریکی عوام بھی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ سان فرانسسکو میں فلسطینیوں کی حمایت میں منفرد احتجاج کیا گیا۔ جو بحری جہاز اسرائیل کے لیے مدد لے کر روانہ ہو رہا تھا‘ اس کی سیڑھیوں سے بہت سے امریکیوں نے خود کو احتجاجاً باندھ لیا۔ بعد ازاں احتجاج کرنے والی دس خواتین اور چار مردوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسرائیل قیامِ امن کے عالمی اداروں کو پرکاہ کی اہمیت و حیثیت نہیں دیتا۔ جونہی عالمی عدالتِ انصاف سے اسرائیل کے خلاف فیصلہ یا سکیورٹی کونسل کی طرف سے فی الفور سیز فائر کی قرارداد سامنے آئی اس کے ساتھ ہی اس صہیونی ریاست نے اہلِ غزہ پر بمباری میں مزید شدت پیدا کر دی۔ اسرائیل غزہ سے باہر بھی جنگ پھیلا رہا ہے۔ وہ کبھی لبنان پر حملے کرتا ہے اور کبھی شام پر۔ پیر کے روز اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر میزائلوں سے حملہ کیا۔اس حملے میں پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر‘ محمد رضا زاہدی سمیت آٹھ افرادجاں بحق ہوئے ہیں اور قونصل خانے کی عمارت تباہ ہو چکی ہے۔ جہاں امریکیوں کی اکثریت اسرائیل کی شدید مذمت کر رہی ہے وہاں کچھ ٹم والبرگ جیسے سر پھرے امریکی بھی ہیں جو امن و سلامتی کے بجائے تباہی و بربادی کا پرچار کر رہے ہیں۔ ٹم والبرگ ایک امریکی رکن ایوانِ نمائندگان ہے جس نے کچھ عرصہ قبل یہ بیان دیا کہ سرزمین غزہ پر ہیروشیما اور ناگا ساکی کی طرح ایٹم بم گرا کر اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اس بیان کی ساری دنیا میں شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
افسوس اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ عربوں سمیت امتِ مسلمہ کی ساری قیادتیں منقارِ زیر پر ہیں۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی شہادتوں اور وہاں کی تباہی و بربادی سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ امتِ مسلمہ کے سات آٹھ سرکردہ ممالک جن میں سعودی عرب‘ پاکستان‘ قطر‘ مصر ‘ ترکیہ‘ ایران‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں‘ وہ مذاکرات کی ڈرائیونگ سیٹ خود سنبھالیں۔ امریکہ پر جتنا سفارتی و معاشی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے وہ ڈالیں‘ اہلِ غزہ کی نسل کشی کو فی الفور رکوائیں اور عید سے پہلے پہلے سیز فائر کو یقینی بنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں