اُردو زبان میں یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ''چشمِ فلک‘‘ نے دیکھا کہ دلّی میں کیا کیا تباہی ہوئی تھی۔تاہم اکیسویں صدی میں ''چشمِ بشر‘‘ نے غزہ میں ہونے والی تباہی و بربادی کو شب و روز لائیو دیکھا۔ بالآخر غزہ میں 15 ماہ کے بعد مرحلہ وار سیز فائر کا اعلان ہو گیا ہے مگر مکمل جنگ بندی تک ابھی کئی کٹھن مقامات آئیں گے۔اس قتل و غارت گری نے بڑی بڑی ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل ترقی کرنے والی دنیا کو بتا دیا ہے کہ آج کا طاقتور انسان بھی اُتنا ہی وحشی اور درندہ صفت ہے جتنا غاروں اور جنگلوں میں رہنے والا تھا۔
گزشتہ 15 ماہ کے دوران اسرائیل نے ٹنوں وزنی بم جہازوں کے ذریعے گرا کر اورٹینکوں و توپوں سے گولہ باری کر کے کم از کم 47 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں سے آدھی تعداد بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ایک لاکھ 10 ہزارکے قریب غزہ کے شہری شدید زخمی ہیں۔ اسی طرح 23 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ شہری جانیں بچانے کیلئے شمالی غزہ سے نکل کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔تقریباً 90 فیصد ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں‘ اکّا دُکّا باقی میڈیکل سنٹرز بھی ادویات و آلات سے محروم ہو چکے ہیں۔ صد آفرین ہے فلسطینی و غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں پر کہ دم توڑتی ہوئی سہولتوں کے باوجود وہ زندگی کی آس ٹوٹنے نہیں دے رہے اور کسی نہ کسی طرح مریضوں کا دیسی ٹوٹکوں اور اپنی قوتِ ارادی سے علاج کر رہے ہیں۔غزہ کے تمام تعلیمی ادارے‘ سڑکیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔
ایک بار پھر کُل عالم نے براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑی طاقتوں کی پروردہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پلانٹڈ صہیونی ریاست کتنی ظالم اور سفاک ہے۔ دنیا پر یہ بھی واضح ہوا کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا۔ وہ امریکی و یورپی حکومتوں کی شہ پر اپنی من مانی کرتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حماس نے گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اتنی بڑی قربانی دے کر کیا پایا اور کیا کھویا ہے۔ حماس کے اہداف کیا تھے؟ ان اہداف میں سے کتنے حاصل ہوئے ہیں۔ہمیں بعض اہلِ غزہ سے براہِ راست گفتگو سے یہ معلوم ہوا کہ حماس اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے زعم اور غرور کو سرنگوں کرنا چاہتی تھی۔ حماس کا دوسرا ہدف یہ تھا کہ اسرائیل غزہ کی منتخب حماس حکومت کو تسلیم کرے۔اہلِ غزہ کا تیسرا ٹارگٹ یہ تھا کہ اسرائیل ماضی کے طے شدہ معاہدوں پر عمل پیرا ہو کر خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکانے بند کرے۔
گزشتہ ستر برس کے دوران جس طرح ناجائز صہیونی ریاست اہلِ فلسطین کو اُن کی زمینوں سے بزورِ شمشیر بے دخل کر رہی تھی اور آئے روز ان پر فضائی و زمینی حملے کر رہی تھی اس سے حماس نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر ایک انتہائی کامیاب کارروائی کی۔ اس کارروائی میں تقریباً 1200 اسرائیلی ہلاک کر دیے گئے جن میں زیادہ تعداد فوجیوں کی تھی۔حماس نے اس کارروائی میں اڑھائی سو کے قریب اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں مرد و زن فوجی اور شہری شامل تھے۔
حماس کے اس حملے سے یقینا اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا امیج ملیا میٹ ہو گیا اوردنیا میں ایک بار پھر مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا۔ گزشتہ پندرہ برس سے جاری بہیمانہ اسرائیلی خونریزی اور اہلِ غزہ کی نسل کشی پر ساری مغربی دنیا کے عوام نے انسانی ہمدردی کی بنا پر واشنگٹن ‘ نیو یارک ‘ لندن اور پیرس کی سڑکوں پر مسلسل احتجاج کیا۔ البتہ جہاں تک بڑی طاقتوں کا تعلق ہے تو ان میں سپر پاور امریکہ نے تو کھل کر اسرائیل کے مظالم اور سفاکیت کا ساتھ دیا۔ اکثر یورپی ممالک امریکہ کے پیچھے چلتے رہے۔ روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں اس مسئلے سے بڑی حد تک لاتعلق رہیں۔اگرچہ اسرائیل اپنے دعووں کے مطابق غزہ کو صفحۂ ہستی سے نابود کر سکا اور نہ ہی حماس کا وجود مٹا سکا۔
حماس کے دو اہم ترین قائدین اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کی شہادت کے باوجود نئی قیادت نے اُن کی جگہ سنبھال لی ہے اور امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن کے بقول حماس کے شہید ہونے والے جہادیوں کی جگہ نئے فلسطینی مجاہدین اس تنظیم میں شامل ہو گئے ہیں۔
یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا حماس کو اندازہ تھا کہ اسرائیل کے غرور کا سر جھکانے کی اسے اتنی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ہماری رائے میں حماس کو یہ اندازہ ہرگزنہیں تھا بلکہ شایداسے کچھ خوش فہمیاں تھیں۔تاہم حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کو اپنی حکمت عملی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ حماس کو جہادی سے زیادہ اجتہادی پالیسی اپنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ حماس کے قائدین نے شاید سوچا ہوگا کہ اسرائیل چند روز غضبناک رہنے کے بعد اپنے یرغمالیوں کی رہائی کیلئے گھٹنے ٹیک دے گا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح غزہ کے عوام کی حمایت یافتہ تنظیم کو شاید امید ہو گی کہ عرب اور مسلم دنیا کی حکومتیں حماس کی مدد کو دوڑی آئیں گی مگر ان کا یہ خیال بھی خیالِ خام ثابت ہوا ۔
پیش بینی مومن کا شیوہ ہے۔ حماس کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ فوری طورپر متوجہ ہونا چاہیے۔اہلِ غزہ میں بڑے بڑے عالی دماغ موجود ہیں جنہیں اپنی نسلِ نو کی علمی استعداد بڑھانے اور دورِ حاضر کی آئی ٹی اور سوشل میڈیا جیسی فنی سہولتوں کی بھرپور تربیت دینی چاہیے۔معلومات علم ہے اور علم ایک قوت ہے ۔
غزہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے اہلِ درد دوستوں کی رائے میں حماس کو کئی دہائیوں کی شبانہ روز محنت سے قائم کی گئی اس ویلفیئر ریاست کے اتنے بڑے ترقیاتی‘ تعمیراتی‘ طبی اور تعلیمی سٹرکچر کے بارے میں پہلے سے سوچنا چاہیے تھا کہ اسرائیل اس کو تباہ کر دے گا اور پھر اسے دوبارہ وجود میں لانے میں کئی دہائیں لگ جائیں گی اور کئی بلین ڈالر ز فراہم کرنے پڑیں گے۔
غزہ کی مکمل تباہی و بربادی کے بعد یقینا وہاں کے فلسطینیوں کی حماس کیلئے حمایت میں کمی تو واقع ہوئی ہے مگر حکمران تنظیم کے اخلاص اور اس کی قربانی کے بالعموم سبھی قدر دان ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس توسیعی اسرائیلی ریاست میں شام‘ لبنان‘ اُردن اور خیبر تک کے علاقے شامل ہیں۔ صہیونی ریاست نے اس معاملے میں انتہائی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کا نقشہ اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جاری کر دیا ہے۔ دوسری طرف ہمارے تیل کی دولت سے مالا مال عرب بھائی حال مست ہیں اور انہیں مستقبل کے بارے میں کوئی خاص فکر مندی نہیں۔عرب لیگ اور او آئی سی کو اسی طرح متحرک کرنے کی ضرورت ہے جیسے وہ 60ء اور 70 ء کی دہائی میں تھی۔
موجودہ دگرگوں حالات میں حماس نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اچھی شرائط پر سیز فائر کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 33اسرائیلی یرغمالی خواتین اور 50 برس سے اوپر کے لوگ رہا کیے جائیں گے۔ ہر فوجی خاتون کے بدلے اسرائیل 50 فلسطینی قیدی رہا کرے گا اور سویلین کے بدلے میں 30فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ معاہدے کے مختلف مراحل کے دوران حماس کو اسی فہم و فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقل جنگ بندی کی راہ ہموار ہو سکے۔ مکمل فائر بندی کے بعد ہی اہلِ غزہ کی وسیع تر مشاورت سے حماس مستقبل کیلئے ایسی حکمت عملی وضع کرے کہ جس میں جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ہو۔