سرکش ریاست

اسرائیل ایک سرکش ریاست ہے۔ میں نہیں‘ امریکی دانشوروں کی ایک بڑی تعداد یہی کہہ رہی ہے۔ برنی سینڈرز امریکہ کے سب سے زیادہ قابلِ احترام سینیٹر ہیں۔ ریاست ورمونٹ (Vermont) سے بار بار منتخب ہونے والے یہ آزاد سینیٹر ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی وابستگی رکھتے ہیں۔ سینڈرز کلمۂ حق کہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ چار پانچ روز قبل سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے نیتن یاہو پر شدید تنقید کی کہ پہلے اس نے غزہ پر حملہ کیا اور اب اس نے ایران کے فوجی جرنیلوں اور سائنسدانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسرے ملکوں کی خود مختاری کو پاؤں تلے روندنے اور ان کی بری و فضائی حدود کے تقدس کو پامال کرنے کی دنیا کا کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ گزشتہ ایک ہفتے سے اسرائیل ایران پر حملے کر رہا ہے اور ایران اپنا حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
چند روز قبل نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اہلِ تہران ''آمریت‘‘ کو سپورٹ کرنے کی قیمت چکانے کو تیار ہو جائیں۔ اس سرکش ریاست کا وزیراعظم ایران کے شہریوں کو باقاعدہ اکساتا رہا کہ وہ رجیم چینج کی کوشش کریں۔ حتیٰ کہ اس نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر حملہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جس جس ملک میں ڈکٹیٹر شپ ہو گی ہم وہاں وہاں حملہ کریں گے۔ ہم امریکہ کے اتحادی عرب ملکوں سے کہیں گے کہ وہ اس بیان پر تبصرہ کریں۔
اب یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نیتن یاہو نے ایران‘ امریکہ مذاکرات سبوتاژ کر کے ایران پر حملہ کیوں کیا۔ ایران پر اسرائیلی حملے سے صرف ایک روز پہلے تک اسرائیلی عوام اور وہاں کی اپوزیشن کی نیتن یاہو کے خلاف چلائی گئی مہم آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔ آنے والے انتخابات کے متعلق یہ پیشگوئی ستارہ شناسوں کی بھی تھی اور سیاستدانوں کی بھی کہ اگلے انتخابات میں نیتن یاہو کو بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ غزہ میں اسرائیل کے انسانیت کش مظالم کے خلاف ساری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی اور انہوں نے صہیونی ریاست کی شدید مذمت کی۔ ان حملوں میں اب تک 55 ہزار سے زائد اہلِ غزہ شہید ہو چکے ہیں جن میں 15ہزار بچے بھی ہیں۔ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور اسلامی دنیا‘ ہر جگہ سے اسرائیل پر لعن طعن ہوئی۔ ا ب تو گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل نے اہلِ غزہ پر خوراک کی رسد کے سب راستے بند کر رکھے ہیں اور اوپر سے وہ بمباری کر رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تیس چالیس فلسطینیوں کی شہادت ایک معمول بن چکا ہے۔ اسرائیلی یرغمالی ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔ اُن کے پیارے ان کی رہائی کے لیے اسرائیل میں بڑے بڑے مظاہرے کر رہے تھے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل میں بہت سے صہیونیوں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ ایران جونہی ایٹمی استعداد حاصل کرے گا وہ اسرائیل پر حملہ کر دے گا۔ اس عمومی ڈر اور خوف کی آڑ لے کر نیتن یاہو نے ''احتیاطی قدم‘‘ اٹھاتے ہوئے اُس جرم کی پاداش میں ایران پر حملہ کردیا‘ جو جرم اس نے ا بھی کیا بھی نہیں۔ نیتن یاہو نے صہیونیوں کو باور کرایا کہ ہم ایران کے ایٹمی پروگرام کا ابتدا میں ہی ''مکو ٹھپ‘‘ دینا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اس طرح سے راتوں رات اسرائیلی عوام کا رویہ بدل گیا۔ وہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے تو شدید ناقد تھے مگر ایران پر حملوں کی وہ حمایت کر رہے ہیں۔
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یئر لیپڈ (Yair Lapid) ابھی گزشتہ ہفتے تک نیتن یاہو کو نہ صرف ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کرنے کی نوید اسرائیلی عوام کو دے رہا تھا بلکہ یہ پیشگوئی بھی کر رہا تھا کہ اب نیتن یاہو کوچۂ سیاست سے بھی باہر ہوگا مگر اسی اپوزیشن لیڈر نے اب یروشلم پوسٹ میں لکھا ہے کہ اگرچہ میں موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کا زبردست سیاسی مخالف ہوں مگر اس کے ایران پر حملوں کا حامی ہوں۔ ایران ہمارے لیے زبردست ایٹمی خطرہ ہے۔
نیتن یاہو ایران پر حملے کو اپنی ذات کیلئے لائف لائن سمجھتا ہے۔ ہمیں حیرانی تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن کی راہیں کشادہ کرتے کرتے اور خوشحالی وسلامتی کے نغمے الاپتے الاپتے جنگی شعلے کیوں اگلنے لگے ہیں؟ وہ نیتن یاہو کے راستے پر کیوں چل پڑے؟ کیا دنیا کا کوئی ملک‘ جو یو این کا رکن بھی ہو‘ وہ کسی خودمختار ملک کے سربراہ کا نام لے کر اس کو ہلاک کرنے کی باتیں کرتا ہے؟ اسرائیلی وزیردفاع اب بھی اس طرح کی بڑھکیں مار رہا ہے۔ ادھر بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف کا نہایت گرم جوشی سے وائٹ ہاؤس میں استقبال کیا۔ ٹرمپ کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ ظہرانے پر دو گھنٹے تک بات چیت ہوتی رہی۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس طرح دہائیوں قبل کے پُرجوش پاک امریکہ تعلقات کی ایک جھلک دیکھنے میں آئی۔ بظاہر جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سے ملاقات کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا اور پاک بھارت حالیہ جنگ کو روک دینے پران کی فراست کو سراہا اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔ دو ایٹمی قوتوں کو ایک خوفناک ایٹمی تصادم سے بچانے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے بروقت اور تیز رفتار اقدام پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق فیلڈ مارشل نے ٹرمپ پر واضح کر دیا کہ پاکستان برادر اسلامی ملک ایران پر اسرائیلی حملے کو بالکل ناجائز سمجھتا ہے۔ فیلڈ مارشل نے اسرائیل ایران جنگ کے خاتمے کی بھی بات کی ہے۔ اسی طرح فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اہلِ غزہ کیلئے مستقل سیز فائر اور ان کیلئے بلا رکاوٹ خوراک کی ترسیل اور تقسیم کی بھی بات کی ہوگی۔ امید ہے کہ سرکش اسرائیلی ریاست کے عالمی امن کیلئے غیر ذمہ دارانہ رویے کے خاتمے کی طرف ڈونلڈ ٹرمپ کو متوجہ کیا ہو گا۔ اسی طرح ان کی طرف سے نوبیل امن پرائز کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام پیش کرنے کو میں ایک پُرخلوص سمارٹ موو کہوں گا۔ تاہم بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیشرفت اور ایران میں قیامِ امن کے فیصلہ کن اقدام کے بعد دنیا کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نوبیل انعام برائے امن کیلئے پیش کیا جاتا تو زیادہ معنی خیز ہوتا۔ امریکہ میں تو ابھی ڈونلڈ ٹرمپ پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔
امریکی سیاستدانوں اور مشرقِ وسطیٰ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی جنگ کیوں لڑے‘ اسرائیل ا پنی جنگ خود لڑے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن پارٹی نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب ساری دنیا میں امن قائم کرے گی اور دوسروں کی جنگوں میں بھاری امریکی سرمایہ خرچ کرنے اور امریکی سپاہیوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکے گی۔ خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقریروں میں شعلہ بیانی سے کام لیتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ اب جنگوں کا زمانہ ختم‘ ہم امریکی ٹیکس گزاروں کے قیمتی سرمائے کو امریکہ میں ہی فیکٹریاں اور کارخانے لگانے پر خرچ کریں گے مگر اب وہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنے گزشتہ اعلانات کی نفی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ مل کر جنگ کے شعلے بھڑکانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ایک سرکش ریاست‘ جو اَب علاقائی نہیں بلکہ عالمی خطرہ بن چکی ہے‘ کی حوصلہ افزائی نہیں حوصلہ شکنی کریں۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا دماغ ٹھنڈا رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اگر واقعی نوبیل امن پرائز کے خواہش مند ہیں تو پھر وہ پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کی طرح ایران اسرائیل جنگ کا بھی خاتمہ کرائیں۔ صدر ٹرمپ جنگ نہیں امن کا راستہ اختیار کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں