بارشیں ہی بارشیں اورسیلاب ہی سیلاب

عربی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ جب اونٹ بلبلانے لگے‘ غلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو جائے اور جب طغیانی بڑھ کر آئے تو سامنے سے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب قدرت آناً فاناً آنے والے سیلابِ بلا میں چند لمحوں کا بھی موقع نہ دے تو پھر سامنے سے ہٹنے کا موقع کہاں ملتا ہے۔ ایسے مواقع پر لمحوں میں ہنستی بستی بستیاں اُجڑ جاتی ہیں اور مکان اپنے مکینوں کے ساتھ سیلابی ریلوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ کے دوران لقمۂ اجل بننے والے شہریوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اگلے چند لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ ہر چیز تو معمول کے مطابق تھی۔ ایک بستی کی مکیں سکینہ بی بی اپنی بربادی کا قصہ یوں سناتی ہیں کہ بیٹے نے چائے مانگی‘ میں اور میری بیٹی بستی کے بازار سے چینی لینے گئے۔ چند منٹوں میں ہم واپس چل پڑیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ موسلادھار بارش سے یکا یک آنے والا سیلابی ریلا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ بیٹا‘ بہو‘ ان کے چار بچے اور ہمارا گھر بھی۔ سکینہ بی بی کا کہنا ہے کہ اب ہم ماں بیٹی رونے کو تنہا اس دنیا میں رہ گئی ہیں۔ ہمارے خاندان کا کوئی نہیں بچا۔
ان دنوں خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں اس طرح کی غم کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ جن لوگوں پر اتنے بڑے بڑے کوہِ غم ٹوٹے ہیں‘ ہم ان کے دکھ کا ہر گز اندازہ نہیں لگا سکتے۔ حالیہ بارشوں سے خیبر پختونخوا میں زبردست تباہی ہوئی۔ یہاں قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔ زندہ انسانوں سمیت گاڑیاں بہہ گئیں۔ خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 358افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بونیر کے بہت سے رہائشی لاپتا ہیں۔ ان افراد کی تلاش جاری ہے جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہر دل سے یہ دعا نکل رہی ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور ملبے تلے سے سارے لوگ زندہ سلامت باہر نکل آئیں۔ حالیہ بارشوں سے سب زیادہ تباہی بونیر ہی میں ہوئی ہے جہاں 220 سے زائد اموات کے علاوہ اتنے ہی افراد ابھی تک لاپتا بھی ہیں۔ اس کے علاوہ شانگلہ‘ مانسہرہ‘ باجوڑ‘ صوابی اور سوات وغیرہ میں بہت زیادہ اموات ہوئی ہیں۔صوابی کے علاقے دالوڑی بالا میں ہونے والے کلاؤڈ برسٹ نے قیامت ڈھا دی۔ جس کے نتیجے میں تقریباً 25 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ درجنوں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اور دیگر صوبائی حکومتیں‘ وفاقی حکومت اور فوج مل کر سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔گزشتہ روز کراچی میں ہونے والی بارش سے شہریوں کو اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی بارشوں کے خطرات ٹلے نہیں بلکہ محکمہ موسمیات کے مطابق نیلم‘ پونچھ‘ پشاور‘ چترال‘ چارسدہ میں سیلاب کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ راولپنڈی‘ گلیات‘ مری اور جہلم و چکوال میں کلاؤڈ برسٹ کے بہت خدشات ہیں۔ تین چار روز قبل چکوال کے ایک چھوٹے سے گاؤں وہالی زیر میں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے چند گھنٹوں میں 449 ملی میٹر بارش ہوئی جس سے وہاں درجنوں گھر تباہ ہو گئے اور فصلوں کا بھاری نقصان ہوا۔ یہ کلاؤڈ برسٹ کیا ہے؟ جب گرم ہوا اوپر کی طرف اٹھتی ہے تو بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے‘ اس سے بادل پھٹ جاتے ہیں تو یوں تیز بارش ہوتی ہے جیسے کوئی بالٹیوں سے پانی کو انڈیل رہا ہو۔ موسمیاتی اداروں کے مطابق کسی ایک جگہ پر ایک گھنٹے کی مسلسل بارش 200ملی میٹر ہو تو یہ کلاؤڈ برسٹ کا نتیجہ ہو گا۔
پاکستان کے تقریباً تمام صوبوں کے دیہاتی‘ شہری‘ پہاڑی اور میدانی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں۔ مون سون بارشیں ہمارے ہاں وسط جون کے بعد سے لے کر اگست کے آخر تک جاری رہتی ہیں۔ اس موسم میں گلیشیرز بھی پگھلتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں سیلابی ریلے تند و تیز ہوتے ہیں۔ اسی لیے تباہی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سیلابوں کی آمد کو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں روک سکی‘ البتہ دنیا میں ایسے طریقے موجود ہیں کہ جن سے سیلابوں کے پانی کو زحمت کے بجائے رحمت بنایا جا سکتا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح ہم بھی بارشوں کا پانی ذخیرہ کرکے ان سے صحراؤں کو گل و گلزار بنا سکتے ہیں۔ بنجر زمینوں کو سیراب کر سکتے ہیں۔
یہاں دنیا کے جو ماہرین آتے ہیں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کے سیلابوں کا علاج ڈیموں میں ہے۔ آبی گزر گاہوں کو صاف رکھنے اور زیادہ سے زیادہ درخت اُگانے میں ہے۔ ہمیں قدرت نے بنا بنایا کالا باغ ڈیم جیسا تحفہ عنایت کیا تھا۔ ورلڈ بینک نے قرضہ بھی دے دیا۔ ہم اس مجوزہ ڈیم کے پانی سے سیلابوں کا پانی ذخیرہ کر سکتے تھے‘ اس پانی سے وسیع تر علاقے کے کھیتوں کو سیراب کر سکتے تھے اور بجلی کی وافر مقدار پیدا کر سکتے تھے‘ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ اسی طرح ابھی تک دیامر بھاشا ڈیم بھی مکمل ہو جانے چاہیے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں پہاڑی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنا لینے چاہیے تھے۔ اس کے برعکس ہم نے پہاڑی اور میدانی علاقوں کی گزر گاہوں میں بستیوں کی بستیاں بسا لیں۔ ہم قانونِ فطرت کو خاطر میں لاتے ہیں نہ ملکی قانون اور پابندیوں پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ دریاؤں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا نتیجہ بقول غالب یہ نکلتا ہے کہ:پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے۔ اس کے علاوہ سیلابوں کا رخ موڑنے اور اس پانی کو نہروں میں ڈالنے سے بھوری زمینوں کو سرسبز وشاداب کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کلاؤڈ برسٹ کی بالکل درست پیشگوئی تو نہیں کی جا سکتی مگر بارشوں‘ سیلابوں اور متوقع پہاڑی ریلوں کی پہلے سے وارننگ جاری کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ کام بھی کرنے کی اچھی صلاحیت و اہلیت نہیں رکھتے۔
دنیا بھر میں سیلابوں کو روکنے‘ دریاؤں کے رخ موڑنے اور بارانِ رحمت سے طرح طرح کے فوائد سمیٹنے میں چین اور نیدرلینڈز کی مثال دی جاتی ہے۔ چین نے دریائے ینگ زی پر پن بجلی پیدا کرنے کیلئے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنایا ہے۔ سارے چین کی بجلی کی ضروریات کا بڑا حصہ یہ ڈیم پورا کرتا ہے۔ اب چین ایک اور‘ پہلے سے بھی بڑا ڈیم تبت میں دریائے یارلنگ پر تعمیر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے مختلف پہاڑی و میدانی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنائے ہیں۔ نیدر لینڈز نے سیلابوں کو قدرتی و بشری دونوں طریقوں سے روک کر اس سے بہت سے مفید منصوبوں کیلئے پانی اور بجلی‘ اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے نجات حاصل کی ہے۔ نیدر لینڈز سطح سمندر سے نیچے کا علاقہ ہے۔ نیدر لینڈ نے سیلابوں کو روکنے کیلئے ڈیم ڈیک اور مضبوط فصیلیں تعمیر کی ہیں۔ اسی طرح قدرتی ٹیلوں اور پھر انجینئروں کی تعمیر کردہ اونچی اونچی فصیلوں کے ذریعے بپھرے ہوئے بحری پانی کو واپس سمندر میں جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہاں نہروں کا بھی ایک جدید ترین سسٹم قائم ہے۔ نیدر لینڈز والوں کا سلوگن یہ ہے کہ ''پانی کے ساتھ رہیں‘‘۔ وہ کہیں ڈیم تعمیر کرتے ہیں اور کہیں بارشوں کے پانی کو اپنی قدیم گزر گاہوں سے گزار کر بآسانی سمندر تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت فلڈ کنٹرول کے حوالے سے نیدر لینڈ ساری دنیا کا لیڈر مانا جاتا ہے۔
اب ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی فلاحی کام کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس میں ہمارا کتنا بڑا نقصان ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے اجتماعی فلاحی کاموں کو فی الفور سیاسی تعصبات سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک قومی کانفرنس بلا تاخیر بلائی جائے۔ اس کانفرنس میں بارشوں‘سیلابوں اور ڈیموں کے ماہرین بھی موجود ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اس کانفرنس میں جو متفقہ فیصلہ ہو اس پر مزید ملکی و عالمی سائنسدانوں کی آرا لی جائیں اور پھر اس متحدہ فیصلے پر دل و جان سے عملدرآمد کیا جائے تاکہ ہمیں سیلابوں سے چھٹکارا ملے۔ اس کہاوت کو ہمیں اپنا ماٹو بنا لینا چاہیے کہ ''جہاں ارادہ ہو وہاں راستہ نکل آتا ہے‘‘۔ہم اپنے انتظامات ٹھیک کر لیں تو یہی بارشیں ہمارے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن جائیں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں