امریکی ریاست ٹیکساس کی دوسری بڑی کاؤنٹی ڈیلس ہے۔ اسی‘ نوے لاکھ آبادی کی یہ ڈویژن گیارہ بارہ شہروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک اروِنگ ہے‘ جس کی آبادی آٹھ‘ نو لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کی سٹی کونسل کے ایک بھرپور جمہوری اجلاس میں شرکت کرکے حیرت بھی بہت ہوئی اور حسرت بھی۔ حیرت اس بات کی کہ جمہوری دنیا میں چھوٹی چھوٹی اکائیاں بھی کتنی خود مختار ہوتی ہیں اور حسرت یوں ہوئی کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ اروِنگ سٹی کونسل کے اجلاس کی کارروائی گزشتہ ایک کالم میں لکھی جا چکی ہے۔
اس اجلاس میں شرکت کے چند روز بعد ڈیلس ہی کے پاکستانی امریکن کی ایک دعوت میں شرکت کی۔ وہاں ہم سب کا مشترکہ محبوب پاکستان گفتگو کا مرکزی موضوع تھا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جب تک آپ چھوٹے چھوٹے بااختیار صوبے نہیں بنائیں گے اس وقت تک پاکستان میں گڈ گورننس کی بادِ بہاری چلے گی اور نہ ہی عام آدمی کی حالتِ زار سنورے گی۔ شرکائے مجلس کی اکثریت نے پاکستان کے بارے اس تجویز کی تائید کی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ یہ رائے تو بہت اچھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
امریکہ جانے سے قبل میں میاں عامر محمود صاحب کا پاکستان میں نئے صوبے تشکیل دینے کے بارے میں تحقیقی مقالہ: Pakistan 1947-2025: Why It Continues to Fail Its People?پڑھ چکا تھا اور اس پر اظہارِ خیال بھی کر چکا تھا۔ میاں صاحب نے اس مقالے میں آبادی اور رقبے کے اعتبار سے بڑے صوبوں میں عوام کو پیش آنے والی مشکلات گنوائی ہیں اور وضاحت سے بیان کیا ہے کہ جب تک چھوٹے صوبے نہیں بنیں گے‘ اس وقت تک عام آدمی رُلتا ہی رہے گا۔میاں عامر محمود صاحب نے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کے بارے میں منطق و دلیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ ایسا کیوں ہونا چاہیے؟ ایسا اس لیے ہونا چاہیے کہ اس وقت ملکِ عزیز میں سب سے بڑا مسئلہ گڈ گورننس کا ہے۔ گڈ گورننس ہمارے ملک کے کسی شہر یا گاؤں میں نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر فیصلہ صوبے کے دارالحکومت سے صادر ہوتا ہے۔ یہاں ہم مقالے کی وضاحت کیلئے بطور مثال پنجاب کا ذکر کریں گے۔ ہر چھوٹا بڑا اہلکار مقامی طور پر نہیں صوبائی یا مرکزی حکومت کو جوابدہ ہوتا ہے۔ جب تک فریادی کی درخواست ڈیرہ غازی خان یا میانوالی سے لاہور پہنچے گی اور وہاں سے جب تک جواب آئے گا‘ اس وقت تک فریادی بے حال ہو چکا ہوگا۔ تاتریاق از عراق آوردہ شود ما گزیدہ مردہ شود۔اس مقالے کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کہنے کو یہاں جمہوریت ہے مگر عملاً مکمل طور پر شاہانہ نظامِ حکومت رائج ہے۔ اس نظام میں لیڈر ذہانت و قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ بااثر خاندان سے تعلق رکھنے کی بنا پر موروثی طور پر برسراقتدار آ جاتے ہیں۔ تیسری اہم بات انصاف کا حصول ہے۔ موجودہ حالات میں پنجاب میں دور افتادہ علاقوں سے سائل کو لاہور‘ سندھ میں کراچی‘ خیبرپختونخوا میں پشاور اور بلوچستان میں کوئٹہ آنا پڑتا ہے۔ یہاں مقدمات کا انبار ہوتا ہے اس لیے برسوں لگ جاتے ہیں۔ اگر ہر ڈویژن میں زیریں اور سیشن عدالتیں انصاف بانٹ رہی ہوں اور ہائیکورٹ بھی ڈویژنل مقام پر موجود ہو تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی کا عمل کتنا تیز رفتار ہو جائے گا۔
میاں عامر محمود صاحب نے تحقیق و تحریر کی دنیا سے عملی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے اور آگے بڑھ کر بڑی ہمت سے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی ہے۔ برسوں شدتِ احساس کو اپنے سینے میں تھامنے اور اسے قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے بعد بدھ کے روز میاں صاحب نے دو ٹوک انداز میں لاہور کے ایک سیمینار میں اعلان کیا کہ آگے بڑھنے کا راستہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے میںمضمر ہے۔ اس اقدام سے اخراجات کم ہوں گے اور عوامی مسائل بھی حل ہونگے۔ جب ہر صوبے کا اپنی ہائیکورٹ ہوگی تو پھر انصاف دہائیوں میں نہیں دنوں میں ملے گا۔میاں صاحب نے ایک اور بڑے پتے کی بات کی ہے کہ بڑے خاندانوں سے موروثی حکمران تو آتے ہیں مگر عالمی افق پر جگمگانے والے لیڈر مڈل کلاس سے آتے ہیں۔ ساری دنیا میں لیڈر شپ بالعموم مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے آتی ہے۔ اگر چھوٹا صوبہ ہو گا تو زیادہ سے زیادہ دو تین گھنٹے کی مسافت پر جدید ترین سہولتوں والا ہسپتال موجود ہو گا۔ اسی طرح مقامی اور پھر صوبائی ہیڈ کوارٹر میں سکول کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کی یونیورسٹی بھی موجود ہو گی۔ میاں صاحب نے سیمینار میں یہ بھی کہا کہ اگرچہ آئین میں مقامی حکومتوں کا ذکر موجود ہے مگر صوبائی حکمران مقامی حکومتوں کی راہ میں خود سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
چند روز قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ امریکی جمہوریت ہو یا برطانوی یا دنیا کا کوئی اور جمہوری ملک ہو‘ ان کی گڈ گورننس اور دیہات سے لے کر شہروں تک امن و امان اور حسنِ انتظام کا راز مقامی حکومتیں ہیں۔ یہ مقامی حکومتیں مکمل طور پر بااختیار ہوتی ہیں مگر وطنِ عزیز میں اوّل تو کئی کئی برس تک مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے نہیں جاتے اور اگر کسی مجبوری میں یہ افتاد صوبائی حکومتوں پر آن پڑے تو وہ بلدیاتی اداروں کو پہلے ہر طرح سے بے جان اور بے اختیار کرتی ہیں اور پھر بیورو کریسی کے زیر تسلط کر کے انتخابات کی رسم پوری کر دیتی ہیں۔اس لیے 78 برس سے جاری ان مسائل کو حل کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اس وقت دنیا کے بہت سے ملکوں میں رائج ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ دنیا میں چھوٹے چھوٹے خود مختار صوبوں کی عوامی خدمت کے حوالے سے شاندار پرفارمنس دیکھ کر دل یہ چاہتا ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی گڈ گورننس کا یہی منظر ہونا چاہیے۔ ترکیہ میں 81 خود مختار صوبے ہیں جبکہ صرف ساڑھے تین کروڑ کی مختصر سی آبادی والے ملک ملائیشیا میں 11 صوبے ہیں‘ تبھی تو وہاں پر بہترین حسنِ انتظام دیکھنے میں آتا ہے۔
پاکستان میں جب کبھی نئے صوبوں کی بات کی جاتی ہے تو اس پر بالعموم دو بڑے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ نئے صوبوں کیلئے مزید انتظامی عملہ بھرتی کرنا پڑیگا۔ دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ صوبہ چلانے کیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ دونوں اعتراضات کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ نئے صوبوں کے اکثر شعبوں کی ذمہ داریاں منتخب لوگ بلامعاوضہ یا برائے نام معاوضہ وصول کرکے ذاتی کام کے طور پر ادا کرینگے تاکہ انکی حسنِ کارکردگی کی پذیرائی ہو۔ نیا صوبہ ٹیکس لگانے میں خود مختار ہوگا لہٰذا وہ اپنے وسائل خود جمع کریگا اور مالی معاملات میں خود کفیل ہوگا۔ شاعر نے کہا تھا کہ:
کوئی پتھر پھینک کر پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا
لگتا ہے کہ میاں عامر محمود صاحب نے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کا منصوبہ پیش کرکے یہ اندازہ لگانے کی سعی کی ہو گی کہ اس پر عوام الناس کا کیا رِسپانس آتا ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق عوام تو اس پروگرام کو دل و جان سے خوش آمدید کہیں گے کیونکہ اس میں ہر علاقے کے لوگوں کو اپنی ترقی‘ گڈگورننس‘ روزگار کا یقینی تحفظ‘ طبی سہولتیں‘ صحت و صفائی اور تعلیم کو اعلیٰ سے اعلیٰ بنانے اور نوجوانوں کو پروفیشنل تعلیم کے علاوہ ہنر مند بنانے کے اختیارات ان کے اپنے ہاتھوں میں ہوں گے۔ البتہ بڑے بڑے صوبوں کے مالک و مختار بنے ہوئے ایلیٹ کلاس حکمرانوں کے ماتھوں پر بل ضرور پڑیں گے۔ اگرچہ آئینی طور پر پارلیمنٹ سے نئے صوبوں کی منظوری لینا جان جوکھوں کا کام ہو گا مگر اس ارشاد باری تعالیٰ کو میاں صاحب مدِنظر رکھیں۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ''اور جب کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو‘‘۔میاں صاحب! ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کا منصوبہ پیش کرکے آپ نے بلی کے گلے میں گھنٹی تو باندھ ہی دی ہے۔ اب تحریر و تقریر کے بعد تحریک کا عَلم بھی بلند کیجیے!