نو ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ کے سفارتی رہائشی علاقے پر دن دہاڑے دس بم گرائے۔ اسرائیلی حملے کا نشانہ حماس کی پانچ رکنی سیاسی مذاکراتی ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے سارے ارکان‘ جن میں خلیل الحیہ اور خالد مشعل جیسے سینئر لوگ شامل تھے‘ معجزاتی طور پر بچ گئے؛ البتہ خلیل الحیہ کا بیٹا ماہم اور اُن کے محافظین اور ایک قطری آفیسر سمیت چھ افراد اس وحشیانہ بمباری میں لقمۂ اجل بن گئے۔ اس اسرائیلی حملے کی خبر پر ساری دنیا حیران وششدر رہ گئی۔ مشرق ِوسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈا قطر میں ہے۔ ابھی چند ماہ قبل قطر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لگژری بوئنگ 747-8i جیٹ اس وقت پیش کیا کہ جب وہ قطر کے دورے پر آئے تھے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے یہ قیمتی تحفہ امریکہ کو صدارتی جہاز کے طور پر استعمال کرنے کیلئے پیش کیا تھا۔
اسرائیل غزہ پر تقریباً دو برس سے شب وروز بمباری کر کے‘ اور وہاں کے شہریوں کو معصوم بچوں سمیت بھوک سے ہلاک کر کے مطمئن تھا کہ اس غیر انسانی قتل وغارت گری پر دنیا میں احتجاج تو بہت ہو رہا ہے مگر عرب حکمرانوں نے کسی قسم کے شدید ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسرائیل گزشتہ کئی برس سے لبنان‘ شام‘ غزہ اور یمن پر حملے کرتا رہا ہے۔ جون میں اس نے ایران پر حملے کیے اور اس کے جرنیلوں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔
قطر گزشتہ کئی برس سے امن وامان کی علامت ہے۔ قطر ہی نے امریکہ اور افغانستان کے طالبان کے مابین مذاکرات میں میزبان کے فرائض انجام دیے اور اب وہ تقریباً گزشتہ دو برس سے مصر اور ترکیہ کے ساتھ مل کر اسرائیل اور حماس کے بار بار مذاکرات کے ٹوٹتے ہوئے سلسلے کو جوڑتا آ رہا تھا۔ اس کی سر توڑ کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے باز رکھا جائے اور خطے میں امن قائم کیا جائے۔ قطر پر حملہ کر کے اسرائیل نے تمام عربوں کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت‘ کسی بھی عرب امریکی اتحادی پر حملہ کر سکتا ہے۔
قطر کی خودمختاری کو پامال کرنے پر اسرائیل کو کوئی پشیمانی نہیں۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہم جب چاہیں‘ قطر پر دوبارہ حملہ کر سکتے ہیں۔ جہاں جہاں فلسطینی ''دہشت گرد‘‘ ہوں گے ہم وہاں وہاں حملہ کریں گے۔ اسرائیل پر یہ حقیقت عیاں ہے کہ حماس غزہ کے انتخاب کی فاتح جماعت ہے‘ اس سے وابستہ لوگ دہشت گرد نہیں‘ منتخب حکمران جماعت کے سیاستدان ہیں۔ نیتن یاہو کی صہیونی حکومت گزشتہ دو برس سے بدترین دہشت گردی کی مرتکب ہو کر غزہ میں 65 ہزار افراد‘ جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے‘ کو شہید کرنے اور غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں غذائی محاصرہ کرنے کی مجرم قرار پا چکی ہے۔متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے کئی عرب ممالک 2020ء میں معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کر کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر چکے ہیں۔ انہیں اب اپنی غلطی کا ادراک ہو نا چاہیے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے عرب اور مسلم حکمران صرف مذمتی بیانات اور قراردادوں کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے۔ اسرائیل کے حوصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو قطر پر اسرائیلی حملے کا پہلے سے علم تھا اور اس کی ایڈوانس اطلاع قطر کو دے دی گئی تھی۔ قطری وزیر خارجہ نے اس کی واضح تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حملے کے دس منٹ بعد ایک امریکی آفیسر نے اس کی اطلاع دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ عربوں کیلئے قابلِ بھروسا نہیں رہا یا اب اسرائیل امریکہ کیلئے قابلِ اعتماد نہیں؟ امریکہ کی مضبوط یہودی لابی کی بنا پر اسرائیل جو چاہے وہ کرتا رہے مگر ٹرمپ جیسا صدر اسے روک نہیں سکتا۔ موجودہ صورتحال عربوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر پہلے اُن پر عیاں نہیں تھا تو اب واضح ہو گیا ہے کہ غزہ کے بعد ایک ایک کر کے عرب ملکوں کی باری آتی جائے گی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ عرب اب چین اور روس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ تاہم عربوں کیلئے اپنے مستقل دفاع کا یہ راستہ نہیں۔ ہمارے خیال میں ہمارے عرب بھائیوں کو پاکستان اور ترکیہ جیسے مسلم ملکوں کے ساتھ مل کر نیٹو کی طرز کا ایک دفاعی اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ اس اتحاد میں شامل تمام ملکوں کے درمیان معاہدے کی شرطِ اولیں یہ ہو کہ اس دفاعی اتحاد میں شامل کسی ایک ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہوگی کہ وہ کسی دوسرے ملک کی زد میں آئے ہوئے اپنے اتحادی بھائی کا مل کر بھرپور دفاع کریں اور دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیں۔
حالیہ پاک بھارت جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ اب جنگ روایتی نہیں رہی‘ یہ ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت کا کھیل ہے۔ تاہم پرانے زمانے کی گھوڑے والی جنگ ہو یا نصف صدی قبل کی جہازوں اور ٹینکوں والی جنگ ہو یا پھر آج کی ہندسوں اور ذہانت والی جنگ‘ سب کیلئے ایک شرط لازمی ہے اور وہ ہے جواں مردی۔ مسلمان کو تو جوانمردی کے ساتھ ساتھ معاونتِ خداوندی بھی حاصل ہوتی ہے۔ عربوں کو اب گومگو سے باہر آ کر جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے دوٹوک فیصلہ کر لینا چاہیے۔ ڈر ڈر کر گزارہ نہیں ہوگا۔ اسماعیل میرٹھی نے شاید ایسے ہی مواقع کیلئے کہا تھا:
جو ہچکچا کے رہ گیا سو رہ گیا اُدھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا
میں نے عربوں کے ساتھ اڑھائی دہائیوں سے اوپر مقیم رہ کر اُن کے اندر بہت سی صفات دیکھی ہیں۔ اُن کی ایک حیران کن صفت یہ ہے کہ وہ عام روز مرّہ طبی‘ تجارتی اور تعمیراتی شعبوں وغیرہ میں ''آئینِ نو‘‘ سے استفادہ کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ ہم ابھی تک گزشتہ کئی برس سے اپنی معیشت کو ڈیجیٹل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سعودی عرب میں تقریباً ڈیڑھ دہائی سے ساری اکانومی کیش کے بجائے آن لائن ادائیگی پر آ چکی ہے۔ اب سعودی عرب میں ریڑھی پر طعمیہ (پکوڑے) بیچنے والا بھی کیش کے بجائے کارڈ سے ادائیگی کو ترجیح دیتا ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ دو تین پاکستانی آئی ٹی ماہرین وہاں بزنس کے شعبے میں جدید ترین تبدیلیاں لانے کیلئے سعودی نوجوانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ اب آئی ٹی کو تجارتی کے ساتھ ساتھ حربی شعبے میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین اور دیگر انساینت نواز ملکوں کو بلاتاخیر اسرائیل پر زبردست دباؤ ڈال کر غزہ کا غذائی محاصرہ اٹھانے اور فلسطینیوں کی نسل کشی ختم کرنے پر اسے مجبور کرنا ہوگا۔اسرائیل عربوں کی خاموشی دیکھ کر گریٹر اسرائیل کے نعرے بلند کرنے لگا ہے۔ صہیونی حکومت مغربی کنارے سمیت پورا فلسطین‘ اور فرات سے لے کر نیل تک شام‘ مصر‘ لبنان اور اردن کے علاوہ سعودی عرب کے بعض علاقے بھی اس میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ قطر پر حملے کے بعد اسرائیل نے تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں۔ ہمارے عرب اور مسلم حکمرانوں کو کئی دہائیوں سے اسرائیل کے بارے میں اپنی لفظی پالیسی کو فی الفور ترک کر دینا چاہیے۔ اب بات لفظوں‘ قراردادوں اور بے ضرر مذمتی بیانات سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اب عربوں کو فی الفور عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مشترکہ اجلاس بلا کر اسرائیل کا معاشی بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اس سے سفارتی تعلقات منقطع کر لینے چاہئیں اور اس سے منسوب تمام مصنوعات کا مکمل مقاطعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مشترکہ دفاعی معاہدے اور اس سے منسلک تمام تر تفصیلات طے کرنے کیلئے ماہرین کی کمیٹی کا بھی اعلان کر دینا چاہیے۔ عرب بھائیوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ بے لگام اسرائیل کو لگام دیے بغیر اب کوئی محفوظ نہیں۔
کالم ارسال کیا جا چکا تھا تو یہ خبر سن کر اطمینان ہوا کہ میری گزارشات اور امتِ مسلمہ کی خواہشات کے مطابق امیر قطر نے اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پیر کے روز دوحہ میں بلا لیا ہے۔