ڈی جی نادرا… شکریہ!

کالم کا فیڈ بیک تین طریقوں سے آتا ہے۔ ای میل کے ذریعے‘ موبائل میسج کے ذریعے یا عدالتی سمن کے ذریعے۔ اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں کہ میرے کمرے میں اتنے سمن جمع ہو چکے ہیں کہ پہلی نظر میں یہ 'سمن آباد‘ نظر آتا ہے۔ میں ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہوں کہ کالم بوجھل نہ ہونے پائے‘ مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں ڈسکس کر لیا جائے اور ناصح بننے کی کوشش نہ کی جائے۔ غلطیاں اور کوتاہیاں ہم سب کے اندر موجود ہیں لہٰذا اچھا نہیں لگتا کہ بطور کالم نگار میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں کہ ملک و قوم کی تڑپ صرف میرے اندر ہی پائی جاتی ہے‘ میں ہی ایک سچا پاکستانی ہوں باقی سب کو میری پیروی کرنی چاہیے۔ ہاں لیکن کبھی کبھار مشترکہ نوعیت کے مسائل ضرور زیر بحث لے آتا ہوں‘ صرف اس لیے کہ شاید کسی کالم کے نتیجے میں ہم سب کے لیے کوئی آسانی پیدا ہو جائے۔ سرکاری ادارے پر کالم لکھا جائے تو عموماً متعلقہ افسران کالم پڑھ کر چار گالیاں نکالتے ہیں اور اخبار پرے پھینک دیتے ہیں؛ تاہم اس کے برعکس کچھ ایسے افسران بھی ہوتے ہیں‘ جو فوری طور پر شکایت کا نوٹس لیتے ہیں اور اپنی محکمانہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے خود کو مکمل طور پر عوام کے لیے جوابدہ سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں 'ب فارم‘ کے عنوان سے کالم لکھا تو اس میں ڈی جی نادرا سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ نادرا سنٹر میں عوام کو درپیش مشکلات کا نوٹس لیں۔ کرنل (ر) نعمان احمد سیال کا فوری طور پر فون آیا‘ لیکن چونکہ یہ نمبر میرے موبائل میں محفوظ نہیں تھا‘ لہٰذا کال وصول نہیں کی۔ اس سے اگلے روز ان کے PRO فرخ صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے ڈی جی صاحب کا پیغام پہنچایا کہ وہ آپ کے کالم کے سلسلے میں کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کا نقطہ نظر سننا بہت ضروری تھا‘ لہٰذا میں نے بھی خوشدلی سے ہامی بھر لی۔ نعمان احمد سیال صاحب سے ملاقات میں پہلا خوشگوار تاثر یہ ابھرا کہ انہوں نے نہ صرف تفصیلاً ایک ایک بات سنی بلکہ یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کالم میں ذکر کیے گئے نادرا سنٹر کا فوری طور پر دورہ کرکے وہاں سے بھی تفصیلات اکٹھی کی ہیں۔ عموماً سرکاری افسران جب یوں کسی کالم نگار سے ملاقات کرتے ہیں تو اپنی افسری کے زیر اثر ہنستے مسکراتے باتوں باتوں میں اندر کھاتے دھمکی بھی لگا جاتے ہیں۔ میں بھی پوری توجہ سے ڈی جی صاحب کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا اور انتظار میں تھا کہ کب وہ جملہ ادا ہوتا ہے جس میں 'احتیاط کیا کیجئے... ہم بہت کچھ کر سکتے تھے‘ وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن ڈی جی صاحب واقعتاً مختلف مزاج کے ثابت ہوئے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ مسائل موجود ہیں لیکن اس کی وجہ عوام بھی ہیں جو کسی نہ کسی طرح نظام کو فیل کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ مثلاً کہنے لگے کہ ایک صاحب بیماری کے باعث قومہ میں تھے‘ بولنے سے بھی قاصر تھے‘ ان کے صاحبزادے نے نادرا سے درخواست کی کہ والد صاحب کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہو گیا ہے اور نیا بنوانا ہے لہٰذا گھر پر ٹیم بھجوا دی جائے۔ نادرا کی ٹیم گھر پہنچی‘ مریض کے فنگر پرنٹس لیے‘ ضروری کارروائی کی اور شناختی کارڈ جاری کر دیا گیا۔ چند روز بعد مریض کے بھائی کو جب اس بات کا پتا چلا تو وہ پیچ و تاب کھانے لگے کیونکہ بھائی کی جائیداد ہڑپ کرنے کے چکر میں تھے‘ انہوں نے نادرا پر کیس کر دیا کہ میرے بھائی کا شناختی کارڈ کیسے بن گیا جبکہ وہ تو قومہ میں ہیں۔ ڈی جی صاحب نے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کیا کہ نادرا سرکاری ادارہ تو ہے لیکن اس کے لیے کوئی حکومتی فنڈنگ نہیں ہوتی بلکہ نادرا اپنے تمام تر اخراجات اپنے ذرائع سے پورا کرتا ہے۔ نادرا سنٹرز کرائے کے دفاتر میں قائم ہیں جہاں کی سکیورٹی تک کا انتظام نادرا خود کرتا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن نہیں کہ نادرا کے دفاتر کو موبائل کمپنیوں کے دفاتر کی طرح فرنچائزکر دیا جائے یا موبائل کمپنیوں کے دفاتر میں ہی ایک کائونٹر نادرا کا بھی بنا دیا جائے؟ انہوں نے واضح کیا کہ ایسی صورت میں نادرا کا ڈیٹا غیر متعلقہ لوگوں کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ ہے جس سے کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ عنقریب نادرا ون ونڈو آپریشن شروع کرنے جا رہا ہے‘ جس سے عوام کو ایک ہی کائونٹر پر تمام سہولیات میسر ہوں گی۔
ایک خوفناک حقیقت انہوں نے بتائی کہ کچھ لوگ جعل سازی میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ غیر پاکستانی باشندے کو اپنی اولاد ظاہر کرکے اس کا شناختی کارڈ بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس حوالے سے افغان مہاجرین کے بہت سے کیس نادرا نے پکڑے ہیں۔ پرانے شناختی کارڈز کے ناقص سکیورٹی فیچرز کی وجہ سے بہت سے افراد کو یہ موقع ملا کہ وہ جعل سازی کے ذریعے پاکستانی بن گئے لیکن اب سمارٹ کارڈ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں رہا۔ میرا سوال تھا کہ اگر ایسا ہے تو ب فارم وغیرہ بنواتے وقت دوبارہ سے کوائف کیوں طلب کیے جاتے ہیں؟ جواب انہوں نے دیا کہ کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں عام لوگ لاعلم ہیں‘ مثلاً ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں‘ جنہوں نے خفیہ طور پر شادیاں کی ہوتی ہیں اور کسی جگہ اِن شادیوں کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ کئی میاں بیوی کی آپس میں طلاق ہو چکی ہوتی ہے لیکن ریکارڈ میں نہیں ہوتا‘ فرض کیا اگر ایسا کوئی کیس ہو اور شوہر ب فارم بنوانے آئے تو ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم تصدیق کر لیں کہ کیا یہ اب بھی میاں بیوی ہیں یا بچے کے حق ملکیت کا کوئی کیس چل رہا ہے۔ اسی طرح پیدائش اور اموات کے معاملات میں لوگ کوتاہی برت جاتے ہیں اور ریکارڈ میں نہیں لاتے۔
اس ملاقات میں ڈی جی صاحب نے اپنے ادارے کی خامیوں کا بھی اعتراف کیا اور خصوصاً سٹاف کا رویہ بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہ کمپلینٹس کا نہ صرف نوٹس لیتے ہیں‘ بلکہ فوری طور پر احکامات بھی جاری کرتے ہیں۔ ان کے لہجے میں کہیں بھی 'فوجی پن‘ نظر نہیں آیا۔ مجھے اس لیے بھی ان سے عقیدت محسوس ہوئی کہ وطن عزیز کے دفاع میں ان کا بھی بہت بڑا حصہ ہے، فوج میں رہتے ہوئے ان کے کریڈٹ پر ایسے ایسے شاندار پروجیکٹ ہیں کہ سن کر دل خوش ہو گیا۔ کاش میں یہ معلومات بھی قارئین سے شیئر کر سکتا لیکن خود ان کی خواہش تھی کہ گفتگو کا یہ حصہ آف دی ریکارڈ ہی رکھا جائے۔ صلے کی تمنا نہ ہو تو انسان میں ایسی ہی بے نیازی در آتی ہے۔
کالم کا اختتام لکھ رہا تھا کہ ایک محلے دار تشریف لائے۔ پوچھنے لگے کہ کس موضوع پر کالم لکھ رہے ہیں؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے کہ براہ کرم اس میں نادرا کے حوالے سے ایک اور مسئلہ شامل کر دیجئے تاکہ عوام کو ایک اور اذیت سے نجات مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کے روز نادرا میں خواتین کا دن ہوتا ہے‘ اس روز سارا سٹاف بھی خواتین پر ہی مشتمل ہونا چاہیے تاکہ خواتین کسی قسم کی کوئی جھجک محسوس نہ کریں‘ نیز کسی مرد کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ فنگر پرنٹ مشین پر خواتین کے ہاتھ پکڑ کر رکھوائے۔ یہ بات واقعی اہم ہے اور یقینا ڈی جی صاحب کے علم میں لانا ضروری ہے‘ مجھے امید ہے انشاء اللہ وہ اس پر بھی فوری نوٹس لیں گے کیونکہ میں نے انہیں بہت سے سرکاری افسران کی نسبت بہت مختلف اور حساس دل پایا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں